Maktaba Wahhabi

701 - 1201
ہوئے ہیں، لہٰذا یہ کیوں کر درست ہے کہ کسی ایک کے قول کو دوسرے پر ترجیح دی جائے۔ ٭ عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب زیادہ سے زیادہ یہ لیا جاسکتا ہے کہ اس فتنہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی، لیکن یہ مخالفت اس وقت تک قابل مذمت نہیں ہے جب تک کہ مخالفت پر حجت قائم نہ کردی جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ مخالف حجت قائم ہونے کے بعد بھی مخالفت کر رہا ہے اگر ایسی بات نہیں ہے تو مخالف کو معذور سمجھا جائے گا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ مسئلہ کو بھول گیا ہو، یا اس کی نگاہ میں کوئی اور مفہوم ہو، لہٰذا اس کی گرفت نہیں کی جائے گی۔ ٭ عمار رضی اللہ عنہ یہ بات کہہ کر عائشہ رضی اللہ عنہا کی توہین یا ان کی مذمت نہیں کرنا چاہتے تھے، بلکہ امت کی خیرخواہی کے پیش نظر ان کی اجتہادی غلطی واضح کردینا چاہتے تھے کیونکہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود انھیں عائشہ رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت اور فضیلت کا اعتراف تھا۔[1] عمار رضی اللہ عنہ سے وارد شدہ اثر کی بعض روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے سنا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالیاں دے رہا ہے، تو آپ نے اس سے کہا: چپ ہو جا، مردود ونالائق، اللہ کی قسم! وہ دنیا اور آخرت میں تیرے نبی کی زوجہ ہیں، لیکن اللہ نے ان کے ذریعہ سے تمھیں آزمائش میں ڈالا ہے کہ دیکھے تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی۔[2] رہا شیعہ اور روافض کا یہ قول کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ((ہٰہُنَا الْفِتْنَۃُ مِنْ حَیْثُ یَطْلَعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ۔)) ’’یہاں فتنہ برپا ہوں گے یہاں سے شیطان کا سر نمودار ہوگا۔‘‘ پھر اس روایت کے سہارے عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ کو منبع فتنہ قرار دے کر ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا، تویہ سب باتیں گمراہ کن تاویلات، حقائق کے توڑ مروڑ اور تدلیس پر مبنی ہیں اور ان کے ذریعہ سے سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے، چنانچہ یہ لوگ حدیث کے راوی کے قول ((فَأَشَارَ نَحْوَ مَسْکَنِ عَائِشَۃَ)) کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر (حجرہ) کی طرف تھا، اور اسے ہی آپ منبع فتنہ بتانا چاہتے تھے، جیسے عربی زبان کی نزاکت و اسلوب سے واقفیت ہے وہ جان سکتا ہے کہ یہ حدیث کسی بھی اعتبار سے اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ راوی حدیث نے ((أَشَارَ نَحْوَ مَسْکَنِ عَائِشَۃَ۔)) کہا نہ کہ ((أَشَارَ إِلَی جِہْۃِ مَسْکَنِ عَائِشَۃَ۔))اور دونوں تعبیروں میں جو معنوی فرق ہے وہ بالکل واضح ہے، اور اسے اچھی طرح محسوس کیا جاسکتا ہے، نیز پوری روایت کے الفاظ دیکھنے کے لیے صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما جاء فی بیوت ازواج النبی صلي الله عليه وسلم حدیث نمبر (3104) کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
Flag Counter