قبیلۂ ازد اور بنوضبہ کے کئی جان نثار مسلمان اور قریش کے نوجوان لاڈلوں نے اپنی بے مثال بہادری کے جوہر دکھا کر خود کو اللہ کے حوالہ کردیا۔[1]عائشہ رضی اللہ عنہا سخت حیرانی اور مصیبت سے دوچار تھیں آپ جنگ نہیں چاہتی تھیں پھر بھی جنگ جاری تھی اور آپ جنگی شور وہنگامہ کے درمیان پھنس چکی تھیں۔برابر جنگ بندی کا اعلان کررہی تھیں، لیکن کوئی سننے والا نہ تھا، جس نے اونٹ کی نکیل پکڑی شہید کردیا گیا۔ محمد بن طلحہ (السجاد) آئے، اونٹ کی نکیل پکڑی اور ام المومنین سے عرض کی: اے اماں جان! آپ کیا حکم دیتی ہیں، آپ نے فرمایا: آدم کے دو بیٹوں میں سے اچھے کی طرح ہوجاؤ یعنی اپنا ہاتھ روک لو، انھوں نے اپنی سونتی ہوئی تلوار نیام میں کرلی اور شہید کردیے گئے، اللہ ان پر رحم فرما۔[2] اسی طرح عبدالرحمن بن عتاب بن اسید جنھوں نے جان کی بازی لگا کر اشتر کو تہ تیغ کر نے کی کوشش کی تھی وہ بھی شہید کردیے گئے، آپ اشتر سے بھڑگئے تھے اور لڑتے لڑتے جو دونوں زمین پر گرگئے تو ابن عتاب نے غضب ناک ہو کر اپنے آس پاس کے لوگوں سے کہا: مجھے اور مالک کو قتل کردو۔[3] آپ نے ایسا اس لیے کہا تھاکہ آپ اس سے جلے ہوئے تھے، کیونکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف عوام کو بھڑکانے میں اس نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا،لیکن چونکہ ’’اشتر‘‘ مالک کے نام سے مشہور نہ تھا اور یہ کہئے کہ ابھی اس کی موت بھی مقدر نہ تھی اس لیے لوگوں کی توجہ ادھرکم گئی، اگر ابن عتاب مالک کے بجائے، ’’اشتر‘‘ کہتے، تو شاید اس پر تلواروں کی بوچھاڑ ہوجاتی۔[4] عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بھی لڑائی میں جواں مردی کے بے مثال جو ہر دکھائے اور اپنے وجود کو تلواروں کے بیچ میں ڈال دیا، مقتولین کے درمیان سے جب آپ نکالے گئے، تو آپ کے جسم پر چالیس سے زیادہ تیر و شمشیر کے زخم تھے، ان میں سب سے آخری اور کاری ضرب ’’اشتر‘‘ کا تھا، اس نے ابن زبیر پر سخت غصہ کی وجہ سے اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر حملہ نہیں کیا بلکہ دونوں رکابوں پر کھڑا ہوگیا اور پوری طاقت سے ابن زبیر کے سرپر تلوار ماری تھی تاکہ انھیں شہید کر سکے۔[5] بنو عدی، بنو ضبہ اور ازد میں بھی جنگ کا ایندھن دہک اٹھا تھا، اور بنوضبہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حفاظت کے لیے اپنی فدائیت، بہادری، اور غیرت کا مظاہرہ کررہے تھے، ان کے ایک سردار عمر بن یثربی الضبی اپنے رجزیہ اشعار میں جوش وجذبہ کا اظہار اس طرح کرتے ہیں: نُحْنُ بَنِیْ ضَبَّۃَ أَصْحَابُ الْجَمَلْ نُنَازِلُ الْمَوْتَ اِذَا الْمَوْتُ نَزَلْ ’’ہم بنوضبہ ہیں اور اونٹ والے ہیں، جب موت نازل ہوتی ہے تو ہم موت میں خود ہی گھس جاتے ہیں۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |