سور کی کوششیں کامیاب نہ ہوجائیں، اس لیے ان سب نے یکبار گی آپ پر اپنے تیر برسانا شروع کردیے، وہ اللہ کی رضا سے سرفراز ہوئے اور وفات پاگئے اس حال میں کہ مصحف ان کے ہاتھ میں تھا۔[1] سبائیوں کے تیروں نے صرف کعب کا نقصان نہ کیا بلکہ وہ تیر عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ اور ہودج کو بھی آلگے، آپ رضی اللہ عنہا پکار پکار کر کہنے لگیں، اے میرے بیٹو! اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، اللہ اور روز حساب کو یاد کرو، جنگ سے باز آجاؤ‘‘ لیکن سبائی آپ کی بات سننے کو تیار نہ تھے، بصری فوج کو پسپا کرنے کی پوری کوشش میں لگے تھے، علی رضی اللہ عنہ پیچھے سے انھیں جنگ بند کرنے کا حکم دے رہے تھے اور بصریوں پر ہجوم کرنے سے منع کررہے تھے، لیکن سبائی چونکہ مقدمہ الجیش میں تھے اس لیے وہ آپ کی بات ماننے کو تیار نہ تھے اور مسلسل حملہ اور قتال کرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ وہ لوگ آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں اور کعب بن سور آنکھوں کے سامنے قتل کیے جاچکے، تو کہا: اے لوگوں! قاتلین عثمان اور ان کے مدد گاروں پر لعنت بھیجو، آپ رضی اللہ عنہا خود ان پر لعنت اور بددعا کرنے لگیں، اہل بصرہ بھی چیخ چیخ کر قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے معاونین پر بددعا اور لعنت کرنے لگے، جب علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی فوج میں بددعا کی بلند آواز یں سنیں تو آپ نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان پر بددعا کررہی ہیں اور لوگ بھی ان کے ساتھ بددعا کررہے ہیں، آپ کہنے لگے میرے ساتھ تم لوگ بھی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے مددگاروں پر بد دعا کرو اور ان پر لعنت بھیجو، اس طرح علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں بھی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت اور بددعا کی وجہ سے ایک شور مچ گیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے لعنت بھیجتے ہوئے کہا: اے اللہ! قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر وہ زمین میں ہوں یا پہاڑ پر لعنت فرما۔[2] اب جنگ تیز ہوچکی تھی، اس کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دونوں افواج ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھیں، ایک دوسرے پر نیزہ بازی ہورہی تھی، جب ان کے نیزے کند ہوجاتے تو وہ تلواریں سونت لیتے، اس طرح خوب کشت وخون ہوا اور تلواریں کند ہوگئیں۔[3] اور لوگ ایک دوسرے سے قریب ہوگئے۔[4] یہ ایسا نازک وقت تھا جب سبائیوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کا پیر کاٹنے اور خود آپ کو قتل کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کردی تھی۔ بصرہ کی فوج عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے اونٹ کی حفاظت کے لیے تیزی سے آگے بڑھی اور اونٹ کے سامنے جان سپر ہوگئی، اونٹ کے سامنے معرکہ اتنا سخت، جان گسل اور گرم تھا کہ جو بھی اونٹ کی نکیل پکڑتا وہ شہید کردیا جاتا، ہودج میں ہرطرف سے اس قدر تیر چبھے ہوئے تھے جیسے سیہی کے بدن پر کانٹے۔ [5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |