Maktaba Wahhabi

681 - 1201
دیکھا تو معرکہ چھوڑ کر بھاگ نکلے، تو یہ روایت بالکل غلط ہے اور عدالت صحابہ کے خلاف ہے اور جو صحیح ترین روایات ان اصحاب کی صلح پسندی پر شاہد ہیں ان سے معارض ہے۔ بھلا زبیر رضی اللہ عنہ جو کہ مکہ سے بصرہ محض مسلمانوں میں اصلاح کی خاطر آئے تھے انھیں یہ بات کب زیب دیتی ہے کہ وہ ایسا کریں گے ؟ حقیقت یہ ہے زبیر رضی اللہ عنہ آخری لمحات تک اصلاح بین الناس کی کوشش کرتے رہے۔ ’’مستدرک حاکم‘‘ میں ابو حرب بن ابوالأسود الدیلی کی سند سے مروی خبر اس کی شہادت کے لیے کافی ہے، اس میں ہے کہ زبیر نے اصلاح بین الناس کی پوری کوشش کی، لیکن کیا کرتے، ان سب کے باوجود لڑائی چھڑ گئی معاملہ اور خراب ہوگیا، اس لیے آپ نے قتال نہ کیا اور پیچھے ہٹ گئے۔[1]یہی حال طلحہ رضی اللہ عنہ کا بھی تھا، وہ بھی اصلاح ہی کی غرض سے آئے تھے اور خون ریزی کرنا ان کا مقصد نہ تھا، وہ جنگ کے آغاز ہی میں شہید کردیے گئے، جیسا کہ صراحت سے احنف بن قیس نے بتایا ہے ۔[2] طلحہ رضی اللہ عنہ کی موت، زبیر رضی اللہ عنہ کے میدان کار زار چھوڑنے اور طرفین کے مقتولین اور زخمیوں کے زمین پر گرجانے کے بعد جنگ جمل کا پہلا رن پورا ہوگیا۔ اس مرحلہ میں علی رضی اللہ عنہ کی فوج کو غلبہ ملا، آپ معرکہ پر نگاہ رکھے ہوئے تھے، طرفین کے مقتولین اور مجروحین کو گرتے دیکھ کر درد سے بے تاب ہوجاتے اور سراپا رنج والم بن جاتے، آپ دوڑ کر اپنے لخت جگر حسن کے پاس آئے، انھیں سینہ سے لگالیا، اور سسکیاں بھرتے ہوئے ان سے کہا: اے میرے بیٹے! کا ش کہ تمہارا باپ آج سے بیس سال پہلے مرگیا ہوتا، حسن کہنے لگے: اے ابا جان! میں نے آپ کو اس سے روکا تھا، علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا؟ اب اس کے بعد زندگی میں لذت ہی کیا ہے ؟ اور اب کس بھلائی کی امید لگائی جاسکتی ہے؟[3] دوسرا رن:… جب لڑائی کی خبر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہنچی تو ازدی قبائل کے گھیرے میں آپ اپنے اونٹ پر سوار ہوکر نکلیں، آپ کے ساتھ کعب بن سور بھی تھے ؟ جن کے ہاتھ میں آپ رضی اللہ عنہا نے مصحف دیا تھا کہ وہ اسے اوپر اٹھا لیں اور لوگوں کو اس کے حوالہ سے جنگ بندی کی دعوت دیں۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا پوری امید کے ساتھ آگے بڑھیں کہ لوگ میرا احترام کرتے ہوئے ضرور میری بات مان لیں گے اور وہ درمیان میں حائل ہوکر جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو بجھانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔[4] کعب بن سورنے مصحف کو اوپر اٹھایا، بصرہ کی فوج کے آگے چل پڑے اور علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کو مخاطب کر کے کہا: اے لوگو! میں بصرہ کا قاضی کعب بن سور ہوں، تمھیں اللہ کی کتاب پر عمل کرنے اور اسی کی بنیاد پر مصالحت کرنے کی دعوت دیتا ہوں، یہ اعلان سن کر وہ سبائی جو علی رضی اللہ عنہ کی فو ج میں آگے آگے تھے ڈرے کہ کہیں کعب بن
Flag Counter