اَلْمَوْتُ عِنْدَنَا اَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ نَنْعِی ابْنَ عَفَّانَ بِأَطْرَافِ الْأَسَلِ[1] ’’موت ہمیں شہد سے زیا دہ مرغوب ہے، ہم عثمان بن عفان کا بدلہ نیزوں کی نوکوں سے لینے آئے ہیں۔‘‘ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے وہبی تجربہ وقوت اور منفرد عسکری مہارت کی وجہ سے یہ اندازہ کرلیا کہ میدان جنگ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ باقی رہنا جنگ کو جاری رکھنے اور لوگوں کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے اور جب تک عائشہ رضی اللہ عنہا میدان جنگ میں رہیں گی اصحاب جمل پیچھے ہٹنے والے اور جنگ سے رکنے والے نہیں ہیں، اسی طرح اگر آپ رضی اللہ عنہا میدان میں رہتی ہیں تو آپ کی جان کو بھی خطرہ ہے، کیونکہ تیروں کی بوچھاڑ سے آپ کا ہودج سیہی کے کانٹوں جیسا ہوچکا تھا۔[2] اس لیے آپ نے اپنی فوج کے چند لوگوں کو، جن میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابو بکر بھی تھے، اور عبداللہ بن بدیل تھے، حکم دیا کہ آگے بڑھ کر اونٹ کی کوچیں کاٹ دیں اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہود ج سے نکال کر میدان سے باہر کردیں، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا[3] اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہودج اٹھا کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، علی رضی اللہ عنہ نے اسے عبداللہ بن بدیل کے گھر میں پہنچانے کا حکم دیا۔[4] علی رضی اللہ عنہ کی جنگی فراست سچ ثابت ہوئی اور پھر جونہی بصریوں کے سامنے سے نہایت دل جمعی اور شغف کے ساتھ مرمر ٹنے کا سبب ختم ہوا اور ام المومنین رضی اللہ عنہا میدان سے نکال دی گئیں، وہ شکست خوردہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگے، اگر علی رضی اللہ عنہ یہ ترکیب نہ اپناتے تو شاید جنگ اس وقت تک ہوتی رہتی جب تک کہ اصحاب جمل کا ایک فرد بھی نہ بچتا، یا پھر علی رضی اللہ عنہ کا لشکر شکست کھا جاتا۔ بہرحال جب اصحاب جمل کے شکست کے آثار ظار ہوئے تو علی رضی اللہ عنہ نے خود یا آپ کے منادی نے اپنے لشکر میں اعلان کیا: ’’خبردار! کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرنا، کسی زخمی پر ہاتھ نہ اٹھانا، میدان جنگ میں یا معسکر میں جو ہتھیار یا سازو سامان لائے گئے ہیں صرف انھیں مال غنیمت سمجھنا، اس کے علاوہ بقیہ کسی چیز کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ آپ نے انھیں اہل بصرہ کے گھروں میں گھسنے سے منع کیا۔ صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اہل بصرہ میں سے جو لوگ جنگ میں شریک ہوئے تھے، ان سے کہا: ہمارے ساتھیوں میں سے جس کے پاس تم اپنا مال یا ساز وسامان پاؤ اسے واپس لے سکتے ہو، اتنے میں ایک بصری آپ کے لشکر کی ایک جماعت کے پاس آیا وہ لوگ اس کی ہانڈی میں گوشت پکارہے تھے، اس نے ان سے اپنی ہانڈی لے لی اور وہ لوگ غصہ سے دیکھتے رہ گئے۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |