Maktaba Wahhabi

65 - 1201
فرمایا تھا: ((خِلَافَۃُ النُّبُوۃِ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُوْتِي اللّٰہُ الْمُلْکَ أَوْ مُلْکَہُ مَنْ یَّشَائُ۔)) [1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْخِلَافَۃ فِیْ اُمّتِیْ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ مُلْکٌ بَعْدَ ذٰلِکَ۔))[2] حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کی تشریح میں لکھاہے کہ حسن بن علی کی خلافت کے ساتھ تیس (30) سال کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ بایں طور کہ ربیع الاوّل 41ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں حسن رضی اللہ عنہ خلافت سے دست بردار ہوئے اور ربیع الاوّل 11ھ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اسی طرح درمیانی مدت تیس (30) سال کی ہوتی ہے اور اعجاز نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل ثابت ہوتی ہے۔[3] بہرحال مذکورہ ترتیب کے ساتھ حسن بن علی رضی اللہ عنہما خلفائے راشدین میں پانچویں خلیفہ ہیں۔ اگر اللہ کی توفیق شامل حال رہی تو ان کی سیرت پر لکھی گئی کتاب کے ساتھ عہد خلافت راشدہ کے اہم نقوش، خصوصیات، اسباب زوال، نظام حکومت، اس کی رعایا و حکام کی صفات، دستور اساسی، بحرانی احوال سے نمٹنے، ترقی و غلبہ کے قوانین اور فطری نظام، عورت کے مقام و مرتبہ، سرکاری محکموں اور اس دور کی پاک صاف جماعت سے متعلق اہم خلاصہ تحریر کروں گا۔ میں نے اپنی طاقت بھر کوشش کی ہے کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب کی شخصیت پر مختلف گوشوں سے روشنی ڈالوں، کیوں کہ آپ کی زندگی امت مسلمہ کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے اور آپ ان بزرگ ائمہ میں سے ایک ہیں، جنھیں دیکھ کر لوگ اس دنیا میں ان کے اقوال اور افعال و کردار کی پیروی کرتے ہیں، آپ کی سیرت ایمان کے قوی ترین مصادر، صحیح اسلامی رجحان اور دین اسلام کے لیے فہم سلیم کا ایک اہم ذریعہ ہے، اس سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ سنت الٰہی کے ساتھ آپ کیسے پیش آئے اوران کی کیسی بہترین توجیہ کی اور ہم قرآن کریم کے ساتھ کیسے زندگی گزاریں، اس کے بتائے ہوئے راستہ پر کیسے چلیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کیسے کریں، اس سیرت کے مطالعہ سے ہمارے سامنے خوفِ الٰہی اور خلوص و للہیت کی اہمیت کے گوشے نمایاں ہوں گے اور یہ معلوم ہوگا کہ دنیا و آخرت میں انسان کی بھلائی اس بات میں پوشیدہ ہے کہ اس کے سامنے اللہ کی رضا جوئی ہرحال میں مقدم ہو، ساتھ ہی یہ بات بھی ہم جان سکیں گے کہ امت مسلمہ کی بقاء اور اس کی ترقی نیز گمشدہ تہذیب کی بازیابی اور اس میں زندگی کی روح پھونکنے میں مذکورہ سیرت و کردار کی کتنی بڑی تاثیر ہے۔اسی لیے میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت
Flag Counter