کو میں نے سامنے رکھا ہے۔ واضح رہے کہ عقائد، احکام اور مقام صحابہ سے متعلق روایات کی صحت و ضعف معلوم کرنے اور ان پر حکم لگانے میں میں نے سخت موقف اختیار کیا ہے، اور فیصلہ میرا اپنا نہیں بلکہ اس سلسلہ میں اس فن کے اساطین و متخصصین علماء کے اقوال کو نقل کیا ہے، چنانچہ یہ فضل اولاً اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، پھر ان علماء ربانین کے لیے ہے جنھوں نے یہ سب کچھ کیا، میں نے اپنی کوشش کے مطابق صرف صحیح روایات کو سامنے رکھتے ہوئے تاریخی واقعات کی منظر کشی کی ہے اور انھیں مقدم رکھا ہے، پھر ان روایات کو ترجیح دی ہے جو حسن درجہ تک پہنچتی ہیں، نیز ضعیف روایات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا ہے بلکہ واقعات کی کامل تصویر کشی کے لیے کہیں کہیں انھیں ذکر کیا ہے، لیکن یہ ملحوظ رکھا کہ وہ ضعیف روایات صحیح اور حسن روایات سے متصادم نہ ہوں اور اس دور کے روح و مزاج کے موافق ہوں، نیز ان روایات کا تعلق عقیدہ و شرعی احکام سے نہ ہو۔ اسی طرح مناسب مقامات پر محسوس کرتے ہوئے روافض، مستشرقین اور دور حاضر کے بعض قلم کاروں کے شبہات و اعتراضات کا جواب بھی دیا ہے، میری پوری کوشش رہی ہے کہ دور خلافت راشدہ کی تاریخ لکھنے اور اس پر اچھالے گئے کیچڑ کو صاف کرنے، خاص طور سے عہد عثمان غنی و عہد علی رضی اللہ عنہما سے متعلق پیدا کیے گئے اشکالات اور اعتراضات کو زائل کرنے میں اہل سنت کے منہج پر گامزن رہوں۔ اس تاریخ کو مرتب کرتے ہوئے میرے بہت سارے دوستوں اور بھائیوں کی طرف سے نئی نئی معلومات حاصل ہوتی رہیں، اللہ نے اگر چاہا تو میں اپنے عزم کے مطابق اس سفر کو آگے تک لے جاؤں گا اور اس کی ترقی و کارگزاریوں کو ایسے انداز میں بیان کروں گا جو اس روشن دور کے موافق ہو، میں اللہ سے مدد وتوفیق کا طالب ہوں۔ مقدمہ کے آخر میں یہ ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں نے خلفائے راشدین میں پانچویں خلیفہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی زندگی کو مستقل کتاب کی شکل میں موضوع بحث بنایا ہے کیوں کہ شرعی سیاست اور مصالح و مفاسد کی فقہ و بصیرت میں آپ کی مستقل اجتہادی حیثیت ہے اور تعمیری و اصلاحی نظریہ کا مالک ہونے کی وجہ سے ہی وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں اپنی خلافت سے دست بردار ہوئے تھے، اس نظریہ کی تنفیذ میں انھیں مختلف مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، آپ کی منفرد شخصیت جو کہ اصلاحی و تعمیری فکر و نظر سے مالا مال تھی اور اسے نافذ کرنے کا عزم مصمم رکھتی تھی، وہی امت کو اتحاد کی لڑی میں پرونے اور اس بشارت نبوی کے اثبات کا سبب بنی: ((اِبْنِيْ ہَذَا سَیِّدٌ وَ لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔))[1] ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔‘‘ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست برداری اور ان کے ہاتھ پر بیعت کے بعد خلافت علی منہاج النبوۃ کی تیس سالہ مدت ختم ہوجاتی ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |