Maktaba Wahhabi

648 - 1201
طاقت تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے عام مسلمانوں کو سبائیوں، دور دراز کے شہروں سے آئے ہوئے شرپسندوں، قبائل کی اہم اہم شخصیات اور ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے والے مدینہ کے غلاموں اور اس کے قرب وجوار کے بدؤوں کے گھناؤنے کردار اور ان کے برے مقاصد سے خبردار کیا۔ اور چونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ہم خیال صحابہ کی جماعت کے سامنے یہ بات بالکل واضح تھی کہ علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شرپسندوں اور سبائیوں کا وجود ہے، جس کی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ کا ان سے مقابلہ کرنا مشکل ہوگا، ساتھ ہی ساتھ آپ کو خدشہ ہوگا کہ انتقامی کارروائی کی صورت میں یہ گروہ اہل مدینہ پر دھاوا بول سکتا ہے، لہٰذا مناسب ترین بات یہ تھی کہ حتی الامکان مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے اور مطالبہ قصاص کے پہلو پر زور دیا جائے، تاکہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ قصاص نافذ ہوجائے۔ بہرحال یہاں ہمیں یہ کہنے میں ذرہ برابر شک نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ بھی اس مقصد کے حصول کے لیے پوری طرح کوشاں تھے، بلکہ زبیر، طلحہ اور علی رضی اللہ عنہم کے درمیان گفتگو اور بحث ومباحثہ سے متعلق جوروایات پچھلے صفحات میں گزری ہیں وہ سب اسی حقیقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس مقام پر ایک بات اور بھی قابل غور ہے، وہ یہ کہ صحابہ کرام کا یہ انداز اور لوگوں کو حقیقت سے واقف کرانے کے پیچھے کار فرما جذبہ اور نیت کی درستگی، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ سبائیت کے مفسدانہ اسلوب سے اچھی طرح آگاہ تھے، اور انھیں معلوم تھاکہ سبائی لوگ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور انھیں ایسا رخ دیتے ہیں جو امت کے وجود کو چھلنی کردیں اور پھر اسے کسی صورت میں قرار نصیب نہ ہو۔ اس لیے فکری میدان جنگ میں اس کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کے لیے فکری ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس میدان میں صحابہ کا عمل ان صحیح روایات کی روشنی میں واضح طور سے دیکھا جاسکتا ہے جن میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی روانگی کا مقصد بیان کیا ہے۔ چنانچہ طبری کی روایت ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے جب عائشہ رضی اللہ عنہا کی آمد کی خبر سنی تو آپ نے ان سے بصرہ آنے کا مقصد معلوم کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مقصد کی وضاحت ان الفاظ میں کی: ’’اللہ کی قسم! میرے مرتبہ کے اشخاص کسی بات کو چھپا کر گھر سے نہیں نکل سکتے اور نہ کوئی ماں اپنے بیٹوں سے اصل حقیقت چھپا سکتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ مختلف شہروں کے شر پسند اور قبائل کے آوارہ گردوں نے حرم نبوی مدینۃ الرسول پر حملہ کیا اور وہاں فتنہ برپا کیے، انھوں نے فتنہ پردازوں کو بھی پناہ دے رکھی ہے، جس کی بنا پر وہ اللہ اور سول کی لعنت کے مستحق ہیں، علاوہ ازیں انھوں نے بے گناہ خلیفۃ المسلمین کو قتل کیا، معصوم خون کو حلال جان کربہایا، جس مال کا لینا انھیں جائز نہ تھا اس کو لوٹا، حرم نبوی کی بے عزتی کی، ماہ مقدس کی توہین کی، لوگوں کی آبرو ریزی کی، مسلمانوں کو بے گناہ مارا پیٹا اور ان لوگوں کے گھر میں زبردستی اتر پڑے جوان کو ٹھہرانے کے روادار نہ تھے۔ یہ لوگ نقصان دہ رہے، نفع رساں نہیں۔ نیک دل مسلمانوں میں نہ ان سے بچنے کی قدرت ہے اور نہ وہ ان کے ہاتھوں مامون ہیں۔ میں مسلمانوں کو لے کر یہ بتانے نکلی ہوں کہ عام مسلمانوں کو جنھیں میں پیچھے چھوڑآئی
Flag Counter