Maktaba Wahhabi

647 - 1201
اپنی کم عددی کی وجہ سے ان سے مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اور شام اس لیے نہیں گئے کہ وہاں معاویہ رضی اللہ عنہ کا موجود رہنا ان کی موافقت کے لیے کافی تھا۔ جب کہ اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لیے بصرہ کا رخ کرنا ان کے لیے زیادہ مناسب تھا، اس لیے کہ دیگر شہروں کے بالمقابل وہاں فسادیوں کی قوت اور گرفت سب سے کم تھی اور وہاں سے یہ لوگ بآسانی اپنے منصوبہ کو انجام دے سکتے تھے۔[1] ان لوگوں کا منصوبہ کیا تھا؟ اور کس بات کے لیے یہ مہم چلارہے تھے؟ یہ ایسی چیز تھی جو ان کے نکلنے سے پہلے، دوران سفر، یا بصرہ پہنچتے ہوئے کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ ان کا مقصد تھا: ’’دم عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ، اصلاح کی کوشش، مفسدین کی حرکتوں سے عوام کو خبردار کرنا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ ‘‘[2]اور پھر اس مطالبہ کے پیچھے ایک ہی مقصد کار فرما تھا، وہ یہ کہ اللہ کے فرض کردہ حدود میں سے ایک حد کانفاذ ہو۔[3]ورنہ اگر قاتلین عثمان کا ہاتھ نہیں پکڑا جاتا تو مستقبل میں ہر خلیفہ کو انھیں لوگوں کی طرح اشخاص کے ذریعہ سے قتل کیے جانے کا خدشہ تھا۔[4] چنانچہ اپنے مقصد کی انجام دہی کے لیے ان لوگوں نے جو طریقہ اپنا یا تھا وہ یہ تھا کہ اولاً ہم بصرہ پہنچیں، پھر وہاں سے کوفہ چلیں، وہاں قاتلین عثمان کے خلاف وہاں کے لوگوں سے یا ان کے علاوہ دوسروں سے مدد لیں۔ پھر دوسرے شہروں کے باشندوں کو اس تحریک میں شامل کریں تاکہ علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں موجود قاتلین عثمان پر دائرہ تنگ کیا جاسکے اور کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ انھیں گرفتار کیا جاسکے۔[5] شدید ناراضی کے عالم میں ان صحابہ کی بصرہ کی جانب روانگی کوئی معمولی بات بھی تو نہ تھی کہ عوام اس سے غافل رہتے اور دمِ عثمان کو کوئی اہمیت نہ دیتے کہ گویا آپ ایک عام آدمی تھے جسے قتل کردیا گیا۔ تو آپ کے خون کے بدلہ کا مطالبہ لے کر لشکر کے لشکر نکل پڑے اور جہاں ایک طرف اللہ کی حدود میں سے ایک حد کی تنفیذ کی بات تھی، اور اس میں لاپرواہی فطری طور سے غیض وغضب کا باعث تھی وہاں دوسری طرف عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت، ان کا مقام ومرتبہ اور بحیثیت خلیفہ آپ کی عظمت، پھر جس انداز میں آپ کو مظلومیت کی موت ملی یہ سب چیزیں اس پر مستزاد تھیں اور ساتھ ہی خلافت جیسے شرعی منصب کو اغواء کیا گیاتھا، جس کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دین کی حفاظت اور دین کے ذریعہ سے دنیا کی سیاست میں خلیفہ صاحب شریعت کی نیابت کرتا ہے۔[6]گویا خلافت پر ناحق دست درازی کرنا صاحب شریعت پر دست درازی کرنے، اس کی عظمت وقوت کی توہین کرنے اور مسلمانوں کے نظام زندگی کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔[7] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے تمام ساتھی، سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین مجرم سبائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اسلامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میں تھے، کیونکہ سبائیوں کے پاس اتنی قوت اور
Flag Counter