Maktaba Wahhabi

646 - 1201
اور زبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: ہم لوگوں کو ابھاریں گے تاکہ دم عثمان رائیگاں نہ ہو اور ان کے خون کا بدلہ مل جائے اس لیے کہ ان کے خون کے رائیگاں ہونے کا مطلب ہمارے درمیان ہمیشہ کے لیے اللہ کے سلطان کی توہین ہے، اگر لوگ اس طرح کے خون کا راستہ نہیں روکیں گے تو آئندہ جو بھی مسلمانوں کا امام (خلیفہ) ہوگا اس کو اسی طرح کے لوگ قتل کریں گے۔‘‘[1] بلاشبہ ان کے اعصاب و نفوس پر ماضی کی بھول کا ایسا زبردست احساس اس بات کا ضامن تھا کہ لوگوں کو جھنجھوڑ دے اور ان کے سکون و راحت میں ہلچل مچادے، بلکہ جب وہ نکل رہے تھے تو اچھی طرح جانتے تھے کہ بھیانک اور نامعلوم انجام کی طرف جارہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنا گھر چھوڑ رہا تھا اور دوبارہ اپنے گھر لوٹنے کی امید نہیں کررہا تھا، ان کی اولادیں روتی بلکتی انھیں رخصت کررہی تھیں اورآہ و بکا کا ایسا منظر تھا کہ جس دن وہ لوگ مکہ سے بصرہ کے لیے روانہ ہورہے تھے اس دن کو ’’یوم النحیب‘‘ یعنی سسکیاں بھرنے کا دن کہا جانے لگا۔ اور پھر تاریخ اسلام میں اسلام کے لیے اس دن سے زیادہ رونے والا کوئی دن نہیں دیکھا گیا۔[2] اب مکہ ایسے متعدد اسباب کے مہیا ہونے کا مرکز بن چکا تھا، جس کے پیش نظر یہ لوگ سوچنے لگے تھے کہ اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے ہمیں کون سا بہتر ین طریقہ اختیار کرنا چاہیے، وہ اسباب بالاختصار یہ تھے: ٭ بنو امیہ کے افراد مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلے آئے تھے۔ ٭ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ جو کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرہ کے امیر تھے وہ مکہ میں موجود تھے اور مالی امداد کے ساتھ لوگوں کو قصاص طلبی کے لیے بصرہ روانہ ہونے پر ابھاررہے تھے۔ ٭ والیٔ یمن یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ خلیفۂ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے یمن سے چل کر مکہ پہنچ چکے تھے اور جب آپ کی شہادت کی خبر سنی تو آپ اپنے ساتھ جو مال ہتھیار اور گھوڑے وغیرہ مناسب مقدار میں لائے تھے سب کچھ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پیش کر دئیے۔ اس طرح یہ تمام اسباب قاتلین عثمان کی پسپائی کا طریقہ ڈھونڈنے والوں کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بن گئے اور چونکہ اب قوت کو متحد کرنے کے تمام اسباب مہیا تھے، اس لیے اگلے مرحلہ کے بارے میں سوچنے لگے کہ ہماری کارروائی کا آغاز کہاں سے ہو۔ اس سلسلہ میں ان کے درمیان باہم گفت وشنید ہوئی۔ رائے دینے والوں میں سرفہرست عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہماری توجہ کا مرکز مدینہ ہونا چاہیے۔ کسی نے یہ رائے دی کہ ہماری توجہ شام کی طرف ہونا چاہیے، تاکہ معاویہ کے ساتھ مل کر قاتلین کے خلاف متحدہ کارروائی کی جاسکے۔ کافی غور وخوض کے بعد سب لوگ بصرہ جانے پر متفق ہوئے اور مدینہ اس لیے نہیں گئے کہ وہاں قاتلین عثمان کثیر تعداد میں موجود تھے اور یہ لوگ
Flag Counter