Maktaba Wahhabi

634 - 1201
ابو ایوب انصاري رضی اللہ عنہ : ابن ابی شیبہ ’’مصنف‘‘ میں خلیفہ بن خیاط اپنی ’’تاریخ‘‘ میں اور ابن سعد ’’طبقات‘‘ میں، شعبہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے حکم سے دریافت کیا کہ ابوایوب رضی اللہ عنہ معرکۂ صفین میں شریک ہوئے تھے؟ آپ نے کہا: نہیں۔ البتہ نہروان کی جنگ میں لڑائی کے دن وہاں موجود تھے۔[1] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ : بسند صحیح ثابت ہے کہ آپ جنگ جمل اور صفین میں شریک نہ ہوئے۔ بلکہ آپ اس فتنہ سے دور رہنے والی روایات کے ایک راوی ہیں، کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِيْ وَالْمَاشِيْ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِيْ مَنْ تَشَرَّفَ لَہَا تَسْتَشْرِفُہُ، وَمَنْ وَجَدَ مِنْہَا مَلْجَأً أَوْ مُعَاذاً فَلْیَعُذْ بِہِ۔)) [2] ’’عنقریب فتنے برپا ہوں گے، ان میں بیٹھا رہنے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہے اور چلنے والا ووڑنے والے سے بہتر ہے، جو دور سے بھی ان کی طرف جھانک کردیکھے گا وہ اس کو بھی سمیٹ لیں گے۔ اس وقت جس کسی کو کوئی جائے پناہ مل جائے، یا بچاؤ کا مقام مل سکے تو وہ اس میں چلا جائے۔ ‘‘ عبداللّٰہ بن سعد بن ابي السرح رضی اللہ عنہ : امام ذہبی فر ماتے ہیں: ’’آپ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ان کی طرف سے مصر کے گورنر رہے۔‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ جنگ صفین میں شریک ہوئے۔ لیکن راجح یہ ہے کہ آپ فتنہ سے کنارہ کش رہے اور رملہ میں روپوش رہے۔[3] بہرحال فتنہ سے کنارہ کش رہنے والے صحابہ کرام کے بے شمار اقوال میں سے بطور نمونہ یہاں چند اقوال کا ذکر ہوا ہے۔ اس فکر کے حامل صحابہ فتنہ میں شریک نہ ہوئے اور دوسروں کو بھی اس میں شریک ہونے سے ڈراتے رہے۔ فتنہ سے متعلق جن احادیث کے یہ لو گ راوی تھے، اور جن میں مسلمانوں کو باہمی خون ریزی میں شرکت سے منع کیا گیا تھا ان روایات کے مد نظر یہ لوگ اپنے موقف پر مطمئن تھے۔ یہ لوگ خوارج کی جنگ اور جمل وصفین کی جنگ میں تفریق کے قائل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان میں سے ابو ہریرہ اور ابو ایوب انصاری جیسے کئی صحابہ نے خوارج
Flag Counter