میں کیوں شریک ہوئے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ: قتال کرنے کے لیے نہیں شریک ہواتھا، بلکہ اپنے والد کی فرماں برداری میں نکلا تھا۔ چنانچہ حنظلہ بن خویلد العنبری کا بیان ہے کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس دو آدمی عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں جھگڑتے ہوئے آئے۔ ایک کہہ رہاتھا عمار کو میں نے قتل کیا اور دوسرا کہہ رہا تھا کہ میں نے قتل کیا۔ یہ منظر دیکھ کر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: تم دونوں میں کوئی بھی اس سے اپنا جی خوش کرلے! لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((تَقْتُلُہٗ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) انھیں باغی گروہ قتل کرے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے عمرو! کیا اپنے اس پاگل پن سے مجھے محفوظ نہیں رہنے دو گے۔ تمہیں کس نے بلایا تھا؟ انھوں نے کہا: میرے والد نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میری نافرمانی کی شکایت کی تھی، تو آپ نے فرمایا تھا: ((اَطِعْ أَبَاکَ مَا دَامَ حَیًّا))’’تاعمر اپنے باپ کے فرماں بردار بن کر رہو۔‘‘ اس لیے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں، میں لڑنے نہیں آیا ہوں۔[1] بعض روایات میں آتاہے کہ صفین میں اپنی اس شرکت پر آپ بعد میں بہت نادم ہوئے، چنانچہ ابن سعد نے ابن ابی ملیکہ [2]سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا: عبداللہ بن عمرو احساس ندامت پر کہتے تھے: ’’ہائے میں کیوں صفین گیا؟ ہائے افسوس! مسلمانوں کی خون ریزی!کاش یہ سب کچھ واقع ہونے سے دسیوں سال قبل میں مرگیا ہوتا۔ اللہ شاہد ہے، میں صفین میں گیا تو ضرور، لیکن اپنی تلوار نہ اٹھائی اور نہ کوئی تیر چلایا۔‘‘[3] صہیب بن سنان رومي رضی اللہ عنہ : امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’آپ فتنہ سے کنارہ کش رہے اور اپنی حالت پر باقی رہے۔‘‘[4] جعفربن برقان سے روایت ہے کہ میمون بن مہران نے عثمان، طلحہ، زبیر اور معاویہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں لوگوں کی مختلف آراء و خیالات اور ان کی گروہ بندیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: دسیوں ہزار اصحاب رسول اور تابعین میں سے جو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور فتنہ میں شریک نہ ہوئے وہ سعد بن ابی وقاص، ابوایوب انصاری، عبداللہ بن عمر، اسامہ بن زید، حبیب بن سلمہ فہری، صہیب بن سنان اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم ہیں، ان لوگوں نے کہا کہ ہم سب عثمان اور علی دونوں کو پسند کرتے ہیں، ان دونوں میں سے کسی پر تبرا (برأت) نہیں کرتے۔ ان دونوں اور ان کے حامیوں کے لیے ہم ایمان کی گواہی دیتے ہیں۔ان کے لیے بخشش کی امید اور جہنم سے نجات کی دعا کرتے ہیں۔ [5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |