بھی میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کردیا، اور یہ سوچا کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے اللہ اکبر کہا ہے۔ اسامہ نے پورا واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، روایت کے آخر میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا أُسَامَۃُ مَنْ لَکَ بِلَا إِلٰہَ إِلَّااللّٰہُ؟)) یعنی اے اسامہ تمھاری طرف سے ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ)) کا کون جواب دہ ہوگا؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اس نے قتل سے بچنے کے لیے یہ کلمہ پڑھاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ((مَنْ لَکَ یَا أُسَامَۃُ بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟)) تمھاری طرف سے کون لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا جواب دہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی بات دہراتے رہے۔[1] اسامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار یہ فرمان سن کر میں سوچتا تھا کہ اگر اب تک میں اسلام نہ لاتا تو بہتر ہوتا، کاش میں اب اسلام لاتا اور اسے قتل نہ کرتا، میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ اب کسی ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔)) کہنے والے کو ہرگز قتل نہیں کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بَعْدِیْ یَا أُسَامَۃُ؟)) اے اسامہ! کیا میرے بعد ؟ اسا مہ نے کہا: آپ کے بعد۔ [2] حرملہ کا بیان ہے کہ اسامہ نے مجھے علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ جب تم ان کے پاس جاؤ گے تو وہ فوراً پوچھیں گے کہ تمھارے ساتھی کیوں پیچھے رہ گئے؟ تب تم ان سے کہنا کہ وہ کہہ رہے تھے: اگر آپ شیر کے منہ میں ہوں تو مجھے آپ کا ساتھ دینا پسند ہے، لیکن یہاں کا معاملہ ایسا ہے جسے میں درست نہیں سمجھتا۔[3] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اسامہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عذر کی وضاحت کردی کہ میرے دل میں علی رضی اللہ عنہ کے خلاف کوئی کدورت وکراہت نہیں، اگر وہ مشکل سے مشکل ترین جگہ میں ہوں تو بھی میں ان کا ساتھ دینے اور ان کا غم بانٹنے کے لیے تیار ہوں، آج اس موقع پر میرے پیچھے رہ جانے کی صرف ایک ہی وجہ ہے، وہ ہے مسلمانوں کی آپس میں خون ریزی جو مجھے ناپسند ہے۔‘‘[4] امام ذہبی نے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی سند سے ایک دوسری روایت نقل کی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی اسامہ سے ملاقات ہوئی تو علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے اسامہ! ہم تو تمہیں اپنوں میں شمارکرتے تھے، پھر ہمارے ساتھ جنگ میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ اسامہ بن زید نے جواب دیا: اے ابوالحسن! اگر آپ شیر کے ایک جبڑے کو پکڑیں گے تو میں اس کا دوسرا جبڑا پکڑوں گا، یہاں تک کہ ہم دونوں مرجائیں گے، یا دونوں زندہ رہیں گے۔ رہا یہ معاملہ جس سے آپ دوچار ہیں، تو واللہ میں اس میں ہرگز شریک نہ ہوں گا۔ [5] عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما : عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایات میں وارد ہے کہ وہ معاویہ اور اپنے باپ کے ساتھ قتال |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |