Maktaba Wahhabi

631 - 1201
حمید بن ہلال کا بیان ہے کہ جب فتنہ کی آندھی چلی تو عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حجر بن ربیع العدوی سے کہا: اپنی قوم میں جاؤ اور انھیں فتنہ میں شریک ہونے سے منع کرو۔ انھوں نے کہا: میں ان میں ایک غیر معروف آدمی ہوں، میری بات نہیں مانی جائے گی، آپ خود انھیں سمجھا دیں اور فتنہ میں شریک ہونے سے منع کردیں۔ حجر کا بیان ہے کہ پھر میں نے عمران رضی اللہ عنہ کو اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہوئے سنا: ’’پہاڑ کی چوٹی پر سیاہ فام حبشی غلام کی شکل میں بکریوں کا ریوڑ چراتے ہوئے مرجانا، مجھے اس بات سے زیادہ محبو ب ہے کہ مسلمانوں کی دونوں صفوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دے کر موہوم تیر چلاؤں، جس کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ آیا وہ غلطی پر ہے یا صحیح پر۔‘‘[1] سعید بن عاص اموي رضی اللہ عنہ : امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’آپ فتنہ سے الگ رہے اور اچھا ہی کیا۔ آپ نے جنگ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہیں دیا اور جب معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی تو آپ معاویہ کے پاس گئے، انھوں نے آپ کا احترام کیا اور بہت سارے مال سے نوازا۔‘‘[2] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی تو سعید رضی اللہ عنہ اس فتنہ سے الگ ہوگئے، نہ جنگ جمل میں شریک ہوئے اور نہ صفین میں۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت قائم ہوگئی تو آپ ان کے پاس گئے۔‘‘ [3] تنہا سعید رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ سے کنارہ کشی نہ کی تھی، بلکہ ان کے پیچھے اور بھی لوگ تھے، آپ کی کنارہ کشی کی وجہ سے یہ لوگ بھی کنارہ کش رہے، یہاں تک کہ جمل اور صفین کی جنگیں گزر گئیں۔[4] اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ : امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اسامہ نے اپنے حق میں اس فرمان نبوی پر عمل کیا ((کَیْفَ بِلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ یَا أُسَامَۃُ!)) اے اسامہ ! لاالہ الا اللہ کا کیا کرو گے۔ ؟چنانچہ آپ نے اس فتنہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، گھر میں بیٹھ رہے، اور اچھا کیا۔ [5] امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جس کی تفصیل خود اسامہ رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کی ہے کہ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا، میں اور میرے ایک انصاری ساتھی، ہم دونوں نے دشمن کی طرف پیش قدمی کی، میں نے ایک آدمی پر حملہ کیا، جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے اللہ اکبر کی صدا لگائی، پھر
Flag Counter