Maktaba Wahhabi

600 - 1201
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ نے شام والوں سے بھی مصالحت کی بھرپور کوشش کی، اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ لیکن جب مصالحت وسا لمیت کی تمام تدابیر اور کوششیں ناکام ہوگئیں تو مجبور ہو کر آپ نے تلواروں کو بے نیام کیا، تاکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کی سمع و اطاعت اور خلافت اسلامیہ کی وحدت کا قائل کرسکیں، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کے لیے قاتلین عثمان کی سپردگی کی شرط لگادی۔ درحقیقت یہ آپ کااجتہاد تھا، جس میں آپ سے غلطی ہوگئی، جب کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد میں حق بجانب تھے، تو نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کے درمیان جنگ ہوکر رہی۔ اللہ تعالیٰ نے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ کہہ کر تمام باہم دست باگریباں مومنوں کے لیے ایمانی اخوت کو ثابت کیا ہے، پس جنگ جمل کے موقع پر علی اور طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم ، اور جنگ صفین کے موقع پر ان کے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جوکچھ خون ریزیاں ہوئیں، وہ سب بدرجہ اولیٰ اس حکم میں شامل ہیں اور یہیں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمل اور صفین کے معرکوں میں باہم دست و گریباں ہونے والے تمام صحابہ مومن ہیں۔ ان تاریخی حوادث کے سبب صحابہ کو مطعون کرنے، یا انھیں ایمان سے خارج کرنے، یا ان کے حق میں کسی بھی طرح کے نازبیا کلمات کہنے اور لکھنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح کی تمام بکواسات کی تردید کے لیے بس یہی بات کافی ہے کہ ان آیات میں انھیں مومن کہا گیا ہے، ان شاء اللہ ان لڑائیوں کا تفصیلی بیان آئندہ صفحات میں ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو دینی بھائی قرار دیا اور بتایا کہ وہ ایک ہی اساس یعنی ایمان پر متحد ہیں۔ اس لیے ہر دو جھگڑنے والے مسلمان بھائیوں کے درمیان مصالحت کرانا ضروری ہے اور اس حکم پر مزید تاکید کرتے ہوئے اس نے تقویٰ کا حکم دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس اصلاح اور تمھارے دیگر معاملات کا قائد اللہ سے تقویٰ اور اس کا خوف و خشیت ہو، یعنی تم اس مصالحت کو اس طرح نبھاؤ کہ حق اور عدل اس کا لازمہ ٹھہرے۔ فریقین میں سے کسی ایک کی جانب داری نہ ہو، اس لیے کہ سب تمھارے بھائی ہیں اور اسلام نے سب کے در میان برابری رکھی ہے۔ ان میں کسی کو کسی پر فضیلت اور امتیاز نہیں، ایسا کرتے رہو تاکہ تقویٰ یعنی احکامات کی پابندی اور منہیات سے باز رہنے کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق بن سکو۔ [1] اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی کوششوں کی عظمت واہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے اسے اللہ کی رحمت کے نزول کا سبب قرار دیا۔ [2] اس آیت کریمہ میں ایک بات اور قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ دو مسلمان افراد‘‘ کے درمیان جھگڑا کی صورت میں مصالحت کے وقت تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا جب کہ ’’ مسلمانوں کے دو گروہوں میں مصالحت‘‘ کے وقت یہ حکم نہیں دیا۔ اس کا راز یہ ہے کہ ’’ دو افراد‘‘ کے درمیان لڑائی کے وقت اس کا دائرہ وسیع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور وہاں تقویٰ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جب کہ ’’ دوگروہوں ‘‘ کی لڑائی میں فتنہ وفساد کا اثر عام ہوچکا ہوتا
Flag Counter