اچھی بات ہے، ورنہ ہتھیار اٹھانا ضرور ہو جاتا ہے۔ اور فرمان باری تعالیٰ ہے: فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾ (الحجرات:10) کا مفہوم ہے کہ اگر قتال کے بعدسرکش گروہ اللہ کا حکم اور اس کا فیصلہ ماننے کو تیار ہوجائے تو مسلمانوں پر دونوں گروہوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرناواجب ہوجاتا ہے اور ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حکم الٰہی کے مطابق، ظالم کے ہاتھ کو ظلم سے روکیں، تاکہ دونوں گروہوں کے درمیان جدال وقتال نہ پیدا ہو، پھر ثالثی کا کردار اداکرنے والوں کو عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بے شک اللہ تعالی عدل پرور منصفین کو پسند کرتاہے، انھیں بہت اچھا بدلہ دیتا ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو تمام معاملات میں عدل وانصاف کا پابند بناتا ہے۔[1]نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((اَلْمُقْسِطُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ تَعَالٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی مَنَابِرَ مِنْ نُّوْرٍ، عَلٰی یَمِیْنِ الْعَرْشِ، اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِیْ حُکْمِہِمْ وَاَھْلِیْھِمْ وَمَا وَلَّوْا۔))[2] ’’عدل و انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس عرش کے دائیں طرف نور کے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں، اپنوں کے درمیان اور جس کے ذمہ دا ر بنائے گئے، سب میں عدل وانصاف کرتے تھے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان حالات میں مصالحت پیدا کرنے کا حکم دیا جب قتال کی نوبت نہ آئے، اگرچہ یہ اختلافات کتنے چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، فرمایا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ (الحجرات:10) ’’مومن لوگ بھائی بھائی ہیں اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراو، گویا یہ آیت کریمہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی اہمیت کی ایک اساس ہے۔ ‘‘[3] اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے دو گرہوں کے درمیان جدال وقتال ہوجانے سے کسی ایک کو یا دونوں کو صفت ایمان سے خارج نہیں کیا بلکہ انھیں ’’مُؤْمِنُونَ ‘‘ کہا۔ پس عام مومنوں کے بالمقابل مومنوں کے سردار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس آیت کے حکم میں سب سے پہلے شامل ہونے کے مستحق ہیں، خواہ معرکۂ جمل میں ان کی خون ریزیوں کی بات ہو، یا معرکۂ ٔ صفین میں۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کی روشنی میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی پوری کوشش کی اور طلحہ وزیبر رضی اللہ عنہما نے آپ کی بات کو قبول بھی کرلیا تھا، لیکن عبداللہ بن سبا کے چیلوں نے مصالحت نہ ہونے دی اور مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جنگ کی آگ لگا کر دم لیا، اس واقعہ کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں مناسب مقام پر آئے گی۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |