الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ (الحجرات: 9) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو حکم دیا ہے کہ جب مومنوں کے گروہ آپس میں لڑپڑیں تو انھیں اللہ کے فیصلہ کے طرف بلائیں اور ایک دوسرے کو انصاف دلائیں، اگر وہ سننے پر راضی ہوجائیں تو انھیں اللہ کی کتاب سے فیصلہ سنایا جائے تاکہ مظلوم کو ظالم سے اپنا حق ملے اور جوسننے پر راضی نہ ہو وہ باغی ہے، امام المسلمین کے لیے ایسے لوگوں سے اس وقت تک قتال کرنا واجب ہے، جب تک کہ وہ حکم الٰہی کی طرف لوٹ نہ آئیں، اور اس کا اقرار نہ کرلیں۔[1] اسی طرح فرمان الٰہی: وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو حکام پر ان کی اصلاح واجب ہے، انھیں سمجھائیں، اللہ کے حکم کی طرف دعوت دیں، اختلافات کے اسباب و اشکالات کا ازالہ کریں اور انھیں صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کریں، اللہ تعالیٰ نے وَإِن طَائِفَتَانِ میں إِن بمعنی اگر کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی جدال وقتال یکسر ناپید ہونا چاہیے، اور’’ اگر‘‘ کبھی ہو بھی جائے تو بس شاذ ونادر۔ اس آیت کے مخاطب حکام ہیں اور مصالحت کرانے کا حکم ان کے لیے واجب ہے۔[2] امام بخاری وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ گناہ خواہ کتنا ہی بڑا ہوجائے اس کے ارتکاب سے مسلمان اسلام سے خارج نہیں ہوتا، جب کہ خوارج کا عقیدہ اس کے خلاف ہے، وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر اور ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار دیتے ہیں۔صحیح بخاری میں ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ حسن رضی اللہ عنہ آگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ ابْنِیْ ہٰذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔))[3] ’’میر ا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ سے اللہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرادے گا۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے شام اور عراق والوں کے درمیا ن کئی لڑائیوں کے بعد آپ کے ذریعہ سے صلح کرادی۔[4] اور اللہ کے فرمان: فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ (الحجرات:9) کا مطلب ہے کہ اگر دونوں گروہوں میں سے کوئی گروہ دوسر ے پر حد سے تجاوز کرے، وہ کوئی نصیحت قبول نہ کرے اور حکم الٰہی کے سامنے جھکنے کو تیار نہ ہو تو مسلمانوں کے لیے ایسے سرکش گروہ سے جنگ کرنا واجب ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی طرف لوٹ جائے اور بغاوت سے باز آجائے، ایسے سرکش گر وہ سے ہتھیار اور دیگر چیزوں سے جنگ کی جائے گی اور ثالثی کا کردار ادا کرنے والا ان تدابیر کو اختیار کرے گا جن سے باغی گروہ کو حکم الٰہی کی طرف لوٹا سکے، اگر یہ مقصد بغیر ہتھیار اٹھائے حاصل ہوجائے تو بہت ہی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |