ہے، اور اکثریت اس کی لپیٹ میں آچکی ہوتی ہے۔[1] اسی طرح إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ میں إِنَّمَا کا کلمہ حصر کا فائدہ دیتاہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی اخوت دو مومنوں ہی کے درمیان ہوسکتی ہے، ایک مومن اور ایک کافر کے درمیان اخوت نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ اسلام ہی وہ اساس ہے جس پراس کے پیروکار متحد ہوسکتے ہیں۔ نیز یہ آیت رہنمائی کرتی ہے کہ مصالحت کا وجوبی حکم مسلمان بھائیوں کے درمیان ہے نہ کہ کفار کے درمیان۔ لہٰذا اگر لڑائی کافروں کے درمیان ہو اور وہ ذمی ہوں یا مستامن (امن کے طلب گار) تو ان کی مدد، حمایت اور ان سے ظلم دور کرنا واجب ہے۔ اسی طرح اگر لڑنے والوں میں ایک مسلمان اور دوسرا حربی کافر ہو تو مسلمان کی مدد مطلق طور سے واجب ہے۔[2] ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ یہ آیت کریمہ مسلمانوں کے باہمی جدال وقتال اور ان کے اجتہاد و تاویل پر مبنی لڑائیوں کے حکم کی اساس ہے، صحابہ کرام نے اسی پر اعتماد کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہی تھی جب آپ نے فرمایا کہ: ((تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ)) ’’عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو باغی جماعت قتل کردے گی۔‘‘ باغیوں سے قتال کرنا فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض لوگ اسے ادا کردیں تو باقی لوگوں کی طرف سے فرض ساقط ہو جاتا ہے اور اسی کے پیش نظر سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمر اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ لڑائی میں شریک نہ ہوئے اور ہر ایک نے اپنی عدم مشارکت کا عذر بیان کیا، جسے علی رضی اللہ عنہ نے قبول کیا۔‘‘ [3] علاوہ ازیں اس آیت سے اور بھی احکامات مستنبط ہوتے ہیں، جنھیں ہم -ان شاء اللہ- صحابہ کے درمیان واقع ہونے والے حوادث، واقعات کے پہلو بہ پہلو دیکھتے چلیں گے۔ تحکیم اور باغی گروہ سے قتال کے نظام کو اس سلسلہ میں ہونے والی تمام انسانی کوششوں پر سبقت حاصل ہے اور کوتاہ و مجبور اور بے دست وپا انسانیت کی ہر کوشش کے مقابلہ میں جنھیں اس نے اپنے مفلوج تجربات میں نافذ کرنا چاہا، ہر جگہ یہ کامل رہا اور عیوب و نقائص سے پاک رہا۔ مزید برآں یہ نظام نظافت، امانت، اور مکمل عدل وانصاف کی صفات سے متعارف رہا، اس لیے کہ اس نظام میں فیصلہ کا مرکزی نقطہ وہ رہا ہے، جس میں ذاتی مفاد، نفس پر ستی، نااہلی اور کوتاہی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ [4] جنگی حالات پیدا ہوجانے سے لے کر آخری دم تک مصالحت کی کوششیں ہوتی رہیں اور بالآخر اس نے صلحِ عظیم کا تاج پہن ہی لیا جس کے لیے حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے منصوبہ بندیاں کی تھیں۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |