جمل ہوئی اور پھر اس کے بعد آپ نے وہاں کے معاملات کو منظم کیا۔[1] اسی طرح خوارج کی نازیبا حرکتوں کی وجہ سے اور اسی طرح بصرہ پر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قابض ہونے کی کوشش کے دوران بصرہ ایک مرتبہ پھر اضطرابات اور ہنگامی حالات سے گزرا، لیکن جب تک علی رضی اللہ عنہ باحیات رہے بصرہ ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے آپ کے دائرۂ خلافت سے منسلک رہا اور آپ کے مخالفین اس پر قابض نہ ہوسکے۔[2] بصرہ میں گورنری کے دوران ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قائدانہ صلاحیتیں نمایاں ہوئیں، انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کی مصاحبت سے خوب فائدہ اٹھایا اور ان سے غایت درجہ متاثر رہے۔ علی رضی اللہ عنہ بھی وقتاً فوقتاً انھیں نصیحت کرتے رہتے تھے، حتی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے بعد میں نے کسی کے کلام سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جتنا علی رضی اللہ عنہ کے خطوط سے استفادہ کیا، آپ نے مجھے خط لکھا تھا کہ حمد و صلوٰۃ کے بعد: کبھی کبھار آدمی کو ایسی چیز کے فوت ہوجانے پر بھی تکلیف پہنچتی ہے جسے وہ پا نہیں سکتا تھا اور ایسی چیز پاکر اسے خوشی ہوتی ہے، جو اس سے فوت ہونے والی نہیں ہوتی، لہٰذا تمھیں جو زادِ آخرت کے لیے میسر آئے اسے پاکر تمھیں خوشی ہونی چاہیے اور اس کا جو حصہ تم سے فوت ہوجائے اس پر تمھیں افسوس ہونا چاہیے اور تمھیں جو سامان دنیا ملے اسے پاکر بہت خوش نہیں ہونا چاہیے اور اس میں جو فوت ہوجائے تو اس پر رنج و ملال نہ کرنا، تیری ساری فکر موت کے بعد کے لیے ہونا چاہیے۔[3] ابن عباس رضی اللہ عنہ تہجد گزاروں میں سے تھے، ابن ملیکہ سے روایت ہے کہ میں مکہ سے مدینہ تک ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا، آپ دو رکعت نماز پڑھتے، اگر وہ چھوٹ جاتی تو نصف رات کو قیام کرتے، قرآن کے ایک ایک حرف کو خوب ترتیل سے پڑھتے اور سسکیاں لے لے کر آواز سے روتے تھے۔[4] آپ خوف الٰہی سے زار و قطار رونے والے تھے، یہاں تک کہ آپ کے دونوں رخسار پر آنسوؤں کے بہنے سے نشانات پڑ گئے تھے۔ ابورجاء کا بیان ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا ان کی دونوں آنکھوں کے نیچے رونے کی وجہ سے بوسیدہ تسمے کی طرح نشانات پڑگئے تھے۔[5] آپ سوموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے تھے، سعید بن ابوسعید کا بیان ہے کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابن عباس! آپ کیسے روزہ رکھتے ہیں؟ آپ نے کہا: میں سوموار (پیر) اور جمعرات کو روزہ سے ہوتا ہوں، اس نے پوچھا: ایسا کیوں؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ ان دونوں ایام میں اعمال اللہ تک پہنچائے جاتے ہیں اورمیری خواہش ہوتی ہے کہ میرے اعمال اللہ کے پاس ایسی حالت میں پہنچائے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |