سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے ابن عباس سے زیادہ سریع الفہم، عقل مند اور ان سے بڑا عالم و بردبار کسی کو نہیں دیکھا، میں نے عمر بن خطاب کو دیکھا کہ وہ انھیں پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے بلواتے، پھر کہتے: تمھارے پاس ایک پیچیدہ مسئلہ آگیا ہے پھر انھیں کی بات سنتے، حالانکہ آپ کے ارد گرد بدری مہاجرین وانصار صحابہ ہوتے۔[1] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں فرماتے: اور تمھارا وہ ادھیڑوں کا نوجوان لڑکا؟ اس کے پاس بکثرت سوال کرنے والی زبان اور خوب سمجھنے والا دل ہے۔[2] طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ابن عباس پر کسی کو مقدم کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔[3] ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اکثر اوقات عمر رضی اللہ عنہ ہی کے ساتھ رہتے تھے، ان سے مسائل پوچھنے اور دین سیکھنے کے حریص ہوتے، اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ کی تفسیر اور ان کے علم کو تمام صحابہ سے زیادہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی نے روایت اور نقل کیا ہے۔ بعض اہل علم نے اشارہ کیاہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بیشتر معلومات عمر رضی اللہ عنہ سے حاصل کردہ ہیں۔[4] ابن عباس رضی اللہ عنہما پر عمر رضی اللہ عنہ کی خصوصی توجہ سے انھیں تمام علوم میں عموماً اور علم تفسیر کے میدان میں خصوصاً ترقی کرنے میں بہت مدد ملی۔[5] اسی لیے عہد تابعین میں مکی درسگاہ کو حبر الامہ اور ترجمانُ القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مستفید ہونے کا شرف حاصل ہوا۔[6] عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے خاص اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے، جس سال آپ شہید کیے گئے اس سال آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کو حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا۔[7] بہرحال ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ان تمام خوبیوں اور رفعتوں کے باوجود استشراقیت سے مرعوب بعض لوگوں نے حبر الامہ کی حقیقی تصویر کو مسخ کرڈالا اورآپ کی تابناک سیرت میں اکاذیب واباطیل کے داغ دھبے لگا دیے، جب کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ اور عہدِ خلافت راشدہ سے متعلق مستشرقین نے جو بھی خامہ فرسائی کی ہے وہ سب درحقیقت روافض اور متعصب شیعہ کی تاریخ نگاری کا امتداد ہے، جنھوں نے جھوٹی روایات گھڑیں اور اسے صحابہ کرام کی سیرت پر چسپاں کردیا اور جب مستشرقین آئے تو انھو ں نے انھیں جھوٹی خبروں اور موضوع روایات کو زندہ کیا اور اختصاص و موضوعیت اور علمی ریسرچ کے نام پر نئے اسلوب میں اسے عام کیا، جب کہ یہ سب یکطرفہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |