عمر رضی اللہ عنہ کی ایک مجلس خاص طور سے نوجوانوں کے لیے ہوتی تھی، جس میں آپ انھیں دین کی باتیں سناتے، اور سکھلاتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ ان نوجوانوں میں ممتاز ہوا کرتے تھے۔ عبدالرحمن بن زید کا بیان ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ جب کسی نفلی نماز سے فارغ ہوتے تو کھلیان میں جاتے اور محلہ کے نوجوان حفاظ کو بلاتے، ان میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہوتے، بہرحال وہ سب جمع ہوتے قرآن پڑھتے، پڑھاتے اور جب دوپہر کا وقت قریب ہوتا تو ہم واپس چلے جاتے۔ ایک مرتبہ قرآن پڑھتے پڑھتے سب لوگ اس آیت پر پہنچے: وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّـهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿٢٠٦﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠٧﴾ (البقرۃ:206-207) ’’اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے، سو اسے جہنم ہی کافی ہے اور یقینا وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو اللہ کی رضا مندی تلاش کرنے کے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ بندوں پر بے حد نرمی کرنے والا ہے۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے کہا: دو آدمی آپس میں لڑ گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن لی اور مجھ سے پوچھا: تم نے کیا کہا: میں نے جواب دیا: اے امیر المومنین کچھ نہیں؟ آپ کہنے لگے: تم نے کیا کہا کہ دو آدمی آپس میں لڑ گئے؟ راوی کا بیان ہے کہ جب ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اصرار دیکھا تو فرمایا: میں یہاں ایک ایسے آدمی کو دیکھ رہاہوں کہ جب اسے اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا جاتا ہے تو وہ تکبر و تعصب سے گناہ پر اتر آتا ہے اور ایک ایسے آدمی کو بھی دیکھ رہا ہو ں جو اللہ کی رضا کی تلاش میں اپنی جان فروخت کر رہا ہے۔ چنانچہ دوسرا آدمی پہلے شخص کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیتا ہے اور جب وہ نہیں مانتا اور تکبر و تعصب سے گناہ پر اتر آتا ہے تو پہلا شخص کہتا ہے، اب میں اللہ کے لیے اپنی جان کی تجارت کرنے جارہا ہوں، پھر دونوں آپس میں لڑتے ہیں۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اے ابن عباس! اللہ تمھاری اس موروثی جائداد کو باقی رکھے۔[1] سیّدنا عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی آیت کے بارے میں پوچھتے، پھر کہتے: غوطہ لگانے والوں نے غوطہ لگا دیا۔[2] اتنا ہی نہیں بلکہ عمر رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی پیچیدہ مسئلہ درپیش ہوتا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے: اے ابن عباس: کچھ پیچیدہ مسائل پیش آگئے ہیں، تم اور تمھیں جیسے لوگ ہی اسے حل کرسکتے ہیں، پھر آپ ان کی رائے لیتے، عموماً پیچیدہ مسائل میں عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کو بلاتے تھے۔[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |