سے مصالحت کرلی تب ابن عباس رضی اللہ عنہما مکہ چلے گئے۔[1] ابن عباس رضی اللہ عنہما قائدانہ شخصیت کے مالک تھے، ایک قائدِ ربانی کے اوصاف، ذہانت و فطانت، صبر اور عزم جیسی مہتم بالشان صفات آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں، لیکن فقہی بصیرت اور قرآن کی تفسیر میں آپ کو خاصی شہرت ملی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے فقہ فی الدین اور علم بالتفسیر کی دعا کی تھی اور آپ نے کبار صحابہ سے علم دین سیکھا تھا، نیز آپ کی اجتہادی قوت اور استنباط پر قدرت، تفسیر کے اہتمام، اپنے شاگردوں کو تعلیم دینے کا منفرد منہج، علم کی نشر و اشاعت پر آپ کا حرص، علمی اسفار و دورے، تاخیر سے وفات اور عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں ان کی قربت جیسی کئی وجوہات نے آپ کو شہرت عطا کی۔[2] چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان کے اندر ذہانت و فطانت اور خاندانی شرافت کے آثار دیکھے تو انھیں اپنی خصوصی توجہات سے نوازا، اپنی مجلس میں انھیں شریک کرتے، اپنے پاس بٹھاتے، مشورہ کرتے اور مشکل آیات میں انھیں کی رائے پر عمل کرتے اور چونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ابھی نوجوان تھے اس لیے علم حاصل کرنے، اس کی راہ میں آگے بڑھنے، بلکہ کثرت سے تفسیرات بیان کرنے میں عزم و حوصلہ اور جوانی کا بڑا اثر بھی رہا۔ عامر شعبی، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھو ں نے کہا: میرے والد نے مجھ سے کہا: اے میرے عزیز! میں دیکھ رہا ہو ں کہ امیر المومنین تمہیں اپنے بہت قریب رکھتے ہیں تمھارے ساتھ تخلیہ میں ہوتے ہیں اور دیگر صحابہ رسول کے ساتھ تم سے بھی مشورہ کرتے ہیں اس لیے تم میری تین باتیں یاد کرلو: اللہ سے ڈرتے رہنا، ان کے کسی راز کا افشاء نہ کرنا، وہ تمہیں کبھی جھوٹا نہ پائیں، ان کے پاس کسی کی غیبت نہ کرنا۔[3] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ انھیں اپنی مجلس میں اکابر و ممتاز صحابہ کے ساتھ رکھتے، اس کی محض ایک ہی وجہ تھی وہ یہ کہ آپ ان میں قوت فہم، سلامتی فکر اور استنباطی گہرائی و معنویت کا خاصہ پاتے تھے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ ، اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھ سے بھی پوچھتے تھے آپ مجھ سے کہتے تھے تم پہلے کچھ مت بولنا جب تک کہ یہ لوگ نہ بولیں، پھر جب میں کوئی بات کہتا تو آپ فرماتے: آپ لوگ اس ناپختہ ذہن بچے کی طرح صحیح بات مجھے نہ بتا سکے۔[4] ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک آداب مجلس کا سخت اہتمام تھا، چنانچہ اگر آپ کسی ایسی مجلس میں ہوتے جس میں ان سے زیادہ عمر کا کوئی فرد ہوتا تو آپ اس وقت تک کچھ نہ بولتے جب تک کہ آپ کو اجازت نہ مل جاتی، چونکہ عمر رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس عادت کو اچھی طرح محسوس کرتے تھے اس لیے انھیں ابھارتے، اور بولنے کی طرف رغبت دلاتے، تاکہ ان کے نفس کو جلا ملے اور علم کی ہمت افزائی ہو۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |