Maktaba Wahhabi

546 - 1201
عثمان بن حنیف انصاری رضی اللہ عنہ ابھی بصرہ کے منصب ولایت پر زیادہ دن نہ ٹھہرے تھے کہ معرکۂ جمل سے پہلے طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم اور ان کے ساتھ خونِ عثمان کے بدلہ کا مطالبہ کرنے والے بصرہ آپہنچے، پھر حالات سنگین ہوتے گئے اور لڑائی کی نوبت آگئی، ان حضرات کے پہنچنے کے بعد عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھاگ نکلے اور معرکۂ جمل سے کچھ ایام قبل بصرہ کے راستہ میں ان سے جاملے، اس طرح عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی گورنری ختم ہوگئی اور علی رضی اللہ عنہ بصرہ پہنچے، کچھ دنوں تک وہاں قیام کیا، اور اسی دوران جنگ جمل کا واقعہ پیش آگیا جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے، پھر جب علی رضی اللہ عنہ بصرہ سے واپس جانے لگے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو وہاں کا گورنر بنا گئے اور ان کے ساتھ زیاد بن ابیہ کو امور خراج پر مامور کردیا اور زیاد کی انتظامی مہارت و سیاسی ذہانت کے پیش نظر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ ان سے مشورہ لیتے رہیں اور ان کی رائے پر عمل کرتے رہیں۔[1] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے چلتے چلتے ابن عباس رضی اللہ عنہما کویہ نصیحت بھی کی تھی: میں تمھیں اللہ سے تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، اور جن لوگوں کے معاملات کا اس نے تمھیں ذمہ دار بنایا ہے ان کے ساتھ عدل کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اپنے چہرہ، علم اور فیصلہ کو لوگوں کے لیے کشادہ کردو، کینہ و حسد سے اپنے کو دور رکھو، کیونکہ یہ دل اور حق دونوں کو مردہ کر دیتے ہیں اور جان لو کہ جو چیز تمھیں اللہ سے قریب کرے گی وہ تمھیں جہنم سے دور کرے گی اور جوجہنم سے قریب کرے گی وہ اللہ سے دور کرے گی، اللہ کو کثرت سے یاد کرنا اور غافلوں میں سے ہرگز نہ ہونا۔[2] بہرحال فقہ و تفسیر کے بارے میں وسیع و عمیق معلومات کے مالک، معروف صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بحیثیت گورنر اپنا کام شروع کیا اور بصرہ کے ماتحت علاقہ سجستان میں امن و استقرار قائم کرکے اپنی سیاسی مہارت کا ثبوت دیا، اسی طرح اقلیم فارس میں زیاد بن ابی سفیان کو وہاں کا والی بنا کر وہاں کے حالات کو پرامن بنایا، حتیٰ کہ جب خود بصرہ سے جانے لگے تو زیاد بن ابی سفیان کو وہاں اپنا نائب مقرر کیا اور وہ وہاں کے حالات قابو میں رکھنے میں کامیاب رہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا شمار علی رضی اللہ عنہ کے بہت خاص لوگوں میں ہوتا ہے۔ آپ پرخطر و سنگین حالات میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوتے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کی مکمل خیرخواہی کرتے، ان کی طرف سے دفاع کرتے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ان پر مکمل اعتماد کرنے کے ساتھ ان سے مشورہ بھی لیتے رہتے۔ اس طرح 39ھ تک ابن عباس رضی اللہ عنہما بصرہ کے گورنر رہے، اس دوران محکمہ امن کا پولیس افسراور بندوبست کا منتظم اعلیٰ آپ کا معاون ہوا کرتا تھا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تک عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی بصرہ کے گورنر رہے۔ طبری 40ھ کے واقعات میں لکھتے ہیں کہ اکثر سیرت نگاروں کے قول کے بموجب اسی سن میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بصرہ سے مکہ چلے گئے، جب کہ بعض مؤرخین نے اس کا انکار کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کی وفات تک مستقل طور سے بصرہ کے گورنر رہے، پھر علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ
Flag Counter