اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ محمد بن ابی بکر دم عثمان سے ایسے ہی بَری تھے جیسا کہ بھیڑیا دم یوسف سے، نیز یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں محمد بن ابی بکر کے مطعون ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہادت عثمان کے وقت ان کے پاس چلے گئے تھے۔[1] اور حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے بات کی تو وہ شرما گئے اور نادم ہو کر واپس لوٹ گئے، اپنے چہرہ پر پردہ ڈال لیا اور دوسروں کو روکنے لگے، لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا۔[2] د: معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی طرف سے محمد بن ابوبکر کو قتل کے بعد مثلہ کردینے کی دھمکی اور یہ کہ محمد بن ابوبکر کو قتل کے بعد مردار گدھا کی کھال میں لپیٹ کر آگ لگا دی گئی، یہ ساری حرکتیں کسی مقتول کے بارے میں شرعی نقطہ نظر سے میل نہیں کھاتی ہیں، حتی کہ کفار کی لاش کو مثلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، پھر بھلا کسی مسلمان کے بارے میں یہ بات کیوں کر سوچی جاسکتی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر یا سریہ پر کسی کو امیر بناتے تو اسے خاص طور سے اللہ سے تقویٰ اور اس کے مسلمان ساتھیوں کے لیے بھلائی کرنے کی نصیحت کرتے، پھر فرماتے: ((اُغْزُوْا بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، قَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ اُغْزُوْا وَ لَاتَغْلُوْا، وَ لَا تَغْدِرُوْا وَ لَا تُمَثِّلُوْا وَ لَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا۔))[3] ’’اللہ کا نام لے کر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکل جاؤ، کافروں سے جنگ کرو، لڑتے رہنا اور خیانت نہ کرنا، بدعہدی نہ کرنا، مقتول کا مثلہ نہ کرنا اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔‘‘ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر مسلمان مشرکوں کو قید کرلیں اور انھیں قتل کرنا چاہتے ہوں تو ان کی گردنیں مار کر انھیں قتل کریں گے، اس سے تجاوز نہ کریں گے کہ کہیں ان کے ہاتھ، پاؤں، کوئی جوڑ، یا کسی عضو کا مثلہ کردیں، یا پیٹ چاک کردیں، یا آگ سے جلا دیں یا پانی میں ڈبو کر مار ڈالیں ایسی کوئی حرکت نہ کریں گے اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔[4] پس کیا اس شرعی حکم کے ہوتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ گمان کیا جاسکتاہے کہ وہ اس کی مخالفت کریں گے، جب کہ ان کے اوصاف حمیدہ کی ترجمانی ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’وہ لوگ اس امت کے سب سے زیادہ نیک دل، گہرے علم والے اور کم تکلف کرنے والے تھے، اللہ نے ان کو اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کی نشر و اشاعت کے لیے چن لیا تھا، لہٰذا تم ان کے اخلاق و کردار کو اپناؤ، رب کعبہ کی قسم! وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، وہ سیدھے ہدایت پر تھے۔[5] اوران کے بارے میں ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کو پکڑنے، ان کے منہج کو اپنانے اور ان کے سلوک و کردار پر چلنے اور اقتداء کرنے کو ہمارے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |