Maktaba Wahhabi

542 - 1201
2: ابومخنف کی روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ انھیں مصر تاحیات کے لیے دے دیں گے۔ حالانکہ اس پورے واقعہ کو ابن عساکر نے ایسی سند سے ذکر کیا ہے جس میں جہالت پائی جاتی ہے۔[1]حافظ ذہبی نے اسے نقل کیا ہے لیکن صیغۂ تمریض سے یعنی ’’بیان کیا جاتا ہے یاکہا گیا ہے‘‘ جیسے الفاظ سے یہ واقعہ منقول ہے اس طرح یہ روایت ساقط الاعتبار ہوجاتی ہے۔ 3: رافضی روایت محمد بن ابی بکر پر یہ تہمت عائد کرتی ہے کہ انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے نیزہ سے قتل کیا تھا، جب کہ یہ بات یکسر باطل ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ روایات ضرور وارد ہیں، لیکن سب ضعیف ہیں اور ان کی متون شاذ ہیں، اس لیے کہ یہ سب اس صحیح روایت کے خلاف ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل ایک مصری آدمی تھا۔ [2] ڈاکٹر یحییٰ الیحییٰ نے دمِ عثمان سے محمد بن ابی بکر کی براء ت کے کئی ترجیحی اسباب ذکر کیے ہیں: الف: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما قاتلین عثمان کے مطالبہ کے لیے بصرہ تک گئیں، اگر ان کے بھائی بھی قاتلین میں شریک ہوتے تو بھائی کے قتل پر غم نہ کرتیں۔ ب: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا قاتلین عثمان پر لعنت بھیجنا اور ان سے اپنی براء ت کا اعلان کرنا اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ہرگز اپنا قریبی نہیں بنائیں گے اور نہ ہی انھیں منصب ولایت سونپیں گے، جب کہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ محمد بن ابی بکر کو آپ منصب ولایت سونپ رہے ہیں، پس اگر محمد بن ابوبکر قاتلین عثمان میں سے ہوتے تو آپ انھیں یہ منصب ہرگز نہیں سونپتے۔ ج: ابن عساکر نے اپنی سند سے محمد بن طلحہ بن مصرف سے روایت کی ہے کہ میں نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے غلام کنانہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت موجود تھا، اس وقت میں چودہ سال (14)کا تھا، صفیہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: کیا محمد بن ابی بکر نے بھی سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خون میں اپنا ہاتھ تر کیا تھا؟ کنانہ نے کہا: معاذ اللہ!صرف وہ ان کے پاس گئے تھے، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے میرے بھتیجے! تم میرے قاتل نہیں بن سکتے، پھر وہ نکل آئے اور دم عثمان میں قطعاً اپنا ہاتھ نہ ڈالا۔[3] اس حقیقت کی تائید خلیفہ بن خیاط اور طبری کی روایت سے بھی ہوتی ہے، جس کے رجال ثقہ ہیں اور راوی حسن بصری ہیں۔ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے محاصرہ کے آخری دن وہاں موجود تھے۔[4] آپ کا بیان ہے کہ ابن ابوبکر نے عثمان رضی اللہ عنہ کی ریش مبارک پکڑ لی، عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے میری ایسی چیز پکڑی ہے اور ایسی جگہ بیٹھے ہو جہاں تمھارے باپ نہیں بیٹھے تھے، یہ سن کر ابن ابوبکر وہاں سے نکل گئے۔[5]
Flag Counter