((إِنَّ بِالْمَدِیْنَۃِ لَأَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مِنْ مَّسِیْرٍ، وَ لَا ہَبْطُتْمُ مِنْ وَادٍ إِلَّا کَانُوْا مَعَکُمْ مَا حَبِسَہُمْ اِلَّا الْمَرَضُ۔)) ’’مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم جس راستہ پر بھی چلتے ہو یا جس وادی میں بھی اترتے ہو وہ تمھارے ساتھ ہوتے ہیں، انھیں مرض نے روک رکھا ہے۔‘‘ آپ فرماتے: ’’تمھارے ساتھ چلنے کی انھیں نیت تھی۔[1] اور اے محمد! میں نے تمھیں اپنی سب سے بڑی فوج، یعنی باشندگان مصر کا والی بنایا ہے، لوگوں کے معاملات کا تمھیں ذمہ دار بنا دیا ہے، لہٰذا اس منصب کا تقاضا ہے کہ تم اپنی جان پر خوف کھاؤ، اپنے دین کی حفاظت کے لیے خبردار رہو، اگرچہ ایک لمحہ ہی کے لیے کیوں نہ ایسا ہو، نیز اگر یہ طاقت ہے کہ اللہ کی مخلوق میں کسی کی رضا کے لیے اللہ کو ناراض نہ کرو تو ظالم پر سختی کرو، اہل خیر کے لیے نرم ہو جاؤ، انھیں اپنا قریبی، مشیر اور بھائی بناؤ… والسلام ‘‘[2] پھر محمد بن ابوبکر منصب ولایت کے معاملات دیکھنے لگے، شروع کا ایک مہینہ نہایت سکون و سلامتی سے گزرا، لیکن اس کے بعد حالات بدلتے گئے، انھوں نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کی نصیحت پر عمل نہیں کیا اور جن لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی تھی، ان سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی، خط کے ذریعہ سے انھیں بیعت کی دعوت دی، لیکن ان لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا، پھر آپ نے اپنے کارندوں کے ذریعہ سے ان کے خلاف کارروائی کی اور آپ کے کارندوں نے ان کے چند گھروں کو مسمار کردیا، اموال ضبط کرلیے اور چند لوگوں کے گھر والوں کو قید میں ڈال دیا، اس کارروائی کا رد عمل یہ ہوا کہ وہ لوگ محمد بن ابوبکر کے خلاف جنگ پر اتر آئے۔[3] جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی توانھوں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مصر کے خلاف فوجی چڑھائی کردی، اور محمد بن ابوبکر کے مخالفین، جن کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی، اور اس میں مسلمہ بن مخلد اور معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہما جیسے لوگ بھی تھے،[4] انھیں اپنی حمایت میں لیلیا، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ اور محمد بن ابوبکر کی افواج میں زبردست لڑائی ہوئی، جس میں محمد بن ابوبکر قتل کردیے گئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی افواج مصر پر قابض ہوگئیں، اس طرح 38ھ میں مصر علی رضی اللہ عنہ کے دائرہ اقتدار سے نکل گیا۔[5] واضح رہے کہ ابومخنف رافضی تنہا ایسا مؤرخ ہے جس نے اس سلسلہ میں تفصیلی روایت ذکر کی ہے اور اسے طبری نے نقل کیا ہے۔[6] اس نے اس روایت میں کئی تاریخی حقائق کو مسخ کیا ہے اور ایسی باتیں لکھی ہیں جنھیں اس کے علاوہ کسی نے نہیں لکھا، پھر بعض مؤرخین نے اسی پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا، مثلاً |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |