Maktaba Wahhabi

538 - 1201
کو زہر آلود شہد پلایا تھا،[1] حالانکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے زہرخورانی کے ذریعہ سے اشتر کی موت کسی بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ ابن کثیر،[2] ابن خلدون[3] اور انھیں کی تائید میں ڈاکٹر یحییٰ الیحییٰ نے اس مفروضہ کو بعید تر قرار دیا ہے،[4] اور خود میرا بھی یہی خیال ہے۔ اس طرح اشتر نخعی مصر میں اپنا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی وفات پا گئے اس کے باوجود تاریخی مصادر ان کو علی رضی اللہ عنہ کے مصری گورنروں میں شمار کرتے ہیں بہرحال اس کے بعد محمد بن ابوبکر مصر کے گورنر مقرر کیے گئے۔[5] کیونکہ عہد عثمانی میں ایک عرصہ تک وہ مصر میں رہ چکے تھے۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سابق گورنر قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کی مصر سے روانگی سے قبل محمد بن ابوبکر وہاں پہنچ گئے اور قیس و محمد کے درمیان گفتگو ہوئی، اس وقت قیس رضی اللہ عنہ نے محمد کو کچھ نصیحتیں کیں، خاص طور سے ان لوگوں سے متعلق جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر سخت نالاں تھے اور انھوں نے علی رضی اللہ عنہ پر بیعت خلافت نہ کی تھی، انھیں نصیحت کرتے ہوئے آپ نے یہ بھی کہا تھا: ’’اے ابوالقاسم! تم امیر المومنین کے پاس سے آرہے ہو اور ان کی طرف سے میری معزولی اس بات سے مانع نہیں کہ میں تمھیں اور ان کو نصیحت کروں، میں آپ لوگوں کے اس کام سے بخوبی واقف ہوں۔ سنو! جن لوگوں نے علی یا ان کے علاوہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت نہیں کی ہے انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو، اگر وہ تمھارے پاس آئیں تو ان سے ملو اور اگر نہ ملیں تو انھیں طلب نہ کرو، لوگوں کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے انھیں جگہ دو، اگر بیماروں کی عیادت اور جنازوں میں حاضری دے سکتے ہو تو ایسا کرنا، اس سے تمھارا مرتبہ نہیں کم ہوگا۔‘‘[6] اس کے بعد محمد بن ابوبکر نے علی رضی اللہ عنہ کا مکتوب اہل مصر کو سنایا۔[7] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابوبکر کے نام یہ مکتوب اس وقت لکھا تھا جب انھیں مصر کی گورنری پر فائز کیا، اس مکتوب کا مضمون صرف ریاستی سیاست پر محدود نہ تھا، بلکہ اس میں محمد بن ابوبکر کو اللہ کی طرف دعوت دی گئی تھی، اس میں لکھا تھا: ’’اے محمد! اچھی طرح جان لو کہ اگرچہ تمھیں دنیا کی بھی ضرورت ہے، لیکن اس سے پہلے آخرت کی شدید ترین ضرورت ہے، لہٰذا اگر تمھیں کوئی ایسے واقعات پیش آجائیں جن میں ایک کا تعلق آخرت سے ہواور دوسرے کا دنیا سے تو اخروی معاملہ کو ترجیح دینا، نیک خواہشات کی قدر کرنا، نیک نیت رہنا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر بندہ کو اس کی نیت کے مطابق عطا کرتا ہے، جب کوئی بندہ خیر اور اہل خیر کو پسند کرتا ہے اور خود اسے نہیں کرپاتا تو ان شاء اللہ کرنے والے کی طرح اسے اجر ملے گا، اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے واپس ہوئے تھے تو کہا تھا:
Flag Counter