یعقوبی لکھتا ہیں: عمرو بن عاص کی محمد بن ابوبکر سے لڑائی ہوئی اور معاویہ بن خدیج نے محمد بن ابوبکر کو پکڑ کر قتل کردیا، پھر ان کی لاش کو ایک مردار گدھا کے چمڑا میں رکھ کر آگ لگا دی۔[1] جب کہ مسعودی[2] اور ابن حبان[3] نے صرف محمد بن ابوبکر کے قتل کی طرف اشارہ کرنے پر بس کیا ہے اور تفصیلات ذکر نہیں کی ہیں۔ ابن الاثیر نے محمد بن ابوبکر کے نام معاویہ رضی اللہ عنہ کے مکتوب، علی رضی اللہ عنہ و محمد بن ابی بکر کے درمیان مراسلاتی اور معاویہ و عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے نام محمد بن ابوبکر کے جوابی خط کو حذف کرکے طبری کے حوالہ سے ابومخنف کی روایت کو بالاختصار نقل کیا ہے۔[4] نویری نے بھی ابن الاثیر سے ملتی جلتی باتیں ذکر کی ہیں۔[5] اسی طرح ابن کثیر نے تقریباً ابن الاثیر اور نویری جیسی تفصیلات لکھی ہیں، جب کہ ابن خلدون نے ابومخنف کی روایات کے خلاصہ و معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔[6] اور ابن تغري بردی نے ابومخنف کی جملہ روایات کو اختصار سے ذکر کیا ہے۔[7] بہرحال یہ تمام روایات ابومخنف کی سند سے منقول ہیں اور اس دور کی اسلامی تاریخ کے تابناک چہرہ کو مسخ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، افسوس کی با ت ہے کہ عصر حاضر کے قلم کار بھی بلاکسی بحث و تحقیق کے اس کی روایات کو نقل کرتے گئے اور انھیں عام کرنے میں خوب ہاتھ بٹاتے ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ من گھڑت اور جھوٹی روایات بعض علما و ادباء کے ذہنوں میں اس طرح بیٹھ گئیں کہ جسے وہ لوگ کسی حالت میں انکار نہیں کرتے۔ یقینا معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ کا محمد بن ابوبکر کو قتل کرنا صحیح سند سے ثابت ہے، چنانچہ ابوعوانہ، عبدالرحمن بن شماشہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، انھوں نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں کے ہو؟ میں نے کہا: میں مصر کا ہوں، انھوں نے پوچھا: اپنی اس لڑائی میں تم لوگوں نے ابن خدیج کو کیسا پایا، میں نے جواب دیا: وہ ہمارے بہت اچھے امیر رہے، ہم میں سے اگر کسی کا غلام فوت ہوگیا تو اسے غلام دیا، اگر اونٹ گم ہوگیا تو اونٹ دیا، اگر گھوڑا مرگیا تو گھوڑا دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگرچہ انھوں نے میرے بھائی کو قتل کرڈالا، تاہم میرے لیے کوئی مانع نہیں ہے، میں (اس سلسلہ میں) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتاتی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ((اَللّٰہُمَّ مَنْ وَلِیَ مِنْ أَمْرِ أُمَّتِیْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِہِمْ فَارْفُقْ بِہٖ، وَمَنْ شَقَّ عَلَیْہِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ۔))[8] ’’الٰہی جو میری امت کے کسی معاملہ کا ذمہ دار ہو، اور ان کے ساتھ نرمی کرے، اس کے ساتھ تو بھی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |