Maktaba Wahhabi

508 - 1201
ہے تو مال کا ذمہ دار ہوگا، اور اس سے قصاص لیا جائے گا اور اس پر حد نافذ نہ ہوگی۔[1] حارث بن بدر ایک راہزن تھے، انھوں نے گرفتاری سے قبل توبہ کرلی، علی رضی اللہ عنہ ان کی توبہ قبول کرلی اور لوٹ مار کرنے کی شرعی سزا یعنی حد حرابہ کو ان سے ساقط کردیا، اس لیے کہ انھوں نے گرفتاری سے قبل توبہ کرلی تھی۔[2] م:… بے گناہ کو تہمت سے بَری کرنے کے لیے قاتل کا اعترافِ قتل: ایک ویران جگہ سے علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی پکڑکر لایا گیا جس کے ہاتھ میں خون آلود چھری تھی اور اس کے سامنے ایک مقتول خون میں لت پت پڑا تھا، علی رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ اس کو کس نے قتل کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے۔ آپ نے فیصلہ سنایا کہ اسے لے جاؤ اور قتل کردو، جب اسے لے جایا جانے لگا تب ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، اور کہا: اے لوگو! جلدی نہ کرو، اسے علی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس لے جاؤ، چنانچہ لوگ اسے علی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس لے گئے، پھر اس نے کہا: اے امیر المومنین اس شخص کا قاتل یہ نہیں ہے، میں ہوں۔ علی رضی اللہ عنہ نے پہلے آدمی سے پوچھا: کیا وجہ تھی کہ تم نے قتل کی ذمہ داری لے لی، حالانکہ تم قاتل نہ تھے؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المومنین! میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا، رات کا بڑا پہرے دار مقتول کے پاس کھڑا تھا، جب کہ وہ خون میں لت پت تھا اور میں بھی وہاں کھڑاتھا، میرے ہاتھ میں خون آلود چھری تھی، میں اس ویرانہ میں اپنی ضرورت سے گیا تھا، میں نے جب وہ منظر دیکھا تو مجھے اندیشہ ہوا کہ میرا عذر ناقابل قبول ہوسکتاہے اور قسامہ کی نوبت آسکتی ہے، اس لیے میں نے ناکردہ گناہ کا اعتراف کرلیا اور ثواب کی امید پر حقیقت حال اللہ کے حوالہ کردی۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے بہت ہی غلط اقدام کیا، تمھارا پورا واقعہ کیا ہے، تفصیل سے بتاؤ؟ اس نے کہا: میں ایک قصاب ہوں، میں غلس یعنی صبح کے اندھیرا میں اپنی دوکان پر گیا تھا، وہاں گائے ذبح کی، اور اس کا چمڑا اتارا، جب میں اس کا چمڑا اتار رہا تھا تبھی مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی اور چھری میرے ہاتھ میں تھی، میرے قریب میں وہی ویران جگہ تھی، وہاں میں قضائے حاجت کے لیے چلا گیا اور پھر لوٹ کر اپنی دوکان پر واپس آرہا تھاکہ میں نے اس مقتول کو خون میں لت پت دیکھا، اس کا منظر دیکھ کر مجھے دہشت ہوئی اور ٹھہر کر اسے دیکھنے لگا، چھری میرے ہاتھ میں تھی، اتنے میں آپ کی گشتی پولیس میرے پاس آگئی اور مجھے گرفتار کرلیا، پھر لوگوں نے بھی یہی کہا کہ یہی اس شخص کا قاتل ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ مجھے یقین ہوگیا کہ آپ ان لوگوں کی بات کے آگے میری بات نہیں تسلیم کریں گے، اس لیے ناکردہ گناہ کا میں نے اعتراف کرلیا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے دوسرے اقرار کرنے والے سے پوچھا: تمھارا کیا واقعہ ہے، اس نے کہا: مجھے ابلیس نے بہکایا، اور میں نے مال کے لالچ میں اس شخص کو قتل کردیا اور جب گشتی پولیس (رات کے پہریدار) کی آہٹ سنی تو ویران جگہ سے بھاگ نکلا اور قصاب نے اپنا جو واقعہ بتایا ہے جب میں نے اسے اسی حالت میں دیکھا تو ویران جگہ کے ایک کنارے چھپ گیا اور میں دیکھ رہا تھا کہ رات کو گشت کرنے والے پہرہ دار آئے اور اسے گرفتار کرکے
Flag Counter