Maktaba Wahhabi

457 - 1201
اوّلین اسلامی دار الخلافہ مدینہ میں یا بعد کے ادوار میں کوفہ میں نہیں بھیجتے تھے۔[1] یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ خلفائے راشدین اور خاص طور سے خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں تمام تر اسلامی ریاستوں میں بشمول جبایہ یعنی ملکی آمدنی کے ذرائع اور اس کے عمومی مصارف جیسے دیگر مالی معاملات میں جو دقیق تنظیم عمل میں آئی وہ اپنی نوعیت کی جدید ترین اور منفرد تنظیم تھی، پھر بھی اس میدان میں متقدمین کے تجربات سے استفادہ کرنے میں انھیں کوئی چیز مانع نہ ہوئی اور دواوین کا نظام رائج کیا اور اپنے مالی معاملات کو ہر گوشہ سے یقینی و مستحکم بنایا۔ عہد فاروقی میں مالی معاملات کی تنظیم و استحکام میں جو بھی جدت طرازیاں ہوئیں میں نے انھیں اپنی کتاب ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے‘‘[2]میں قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے، مزید معلومات کے لیے وہاں رجوع کیا جاسکتا ہے۔ فلیپ ہٹی جیسے بعض مستشرقین نے تاریخ عرب پر اپنا جو انسائیکلوپیڈیا تیار کیا ہے اس میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ خلفائے راشدین نے اسلامی سلطنت میں شعبۂ مالیات سے متعلق جو تنظیم و اصلاحات کی ہیں ان کی اہمیت کم کرکے پیش کی جائے، چنانچہ فلیپ ہٹی لکھتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ تاریخی روایات ایسی بہت سی جدید ایجادات کو عمر ( رضی اللہ عنہ ) کی طرف منسوب کرتی ہیں جو آپ کے عہد میں اور ما بعد کے ادوار میں تجربات اور جدید حالات کے تقاضوں کے پیش نظر وجود میں آئیں، اور خراج و جزیہ اور ان کی وصولی کے اصول و قواعد نیز ملک کی دیگر مالی سیاست سے متعلق خلفائ، ریاستی حکمرانوں اور شہر کے افسروں نے جو کچھ کیا وہ سب بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہیں، بلکہ سوریا اور مصر وغیرہ میں بیزنطینی دور حکومت کے جو حکومتی قوانین اور ملکی نظام چلے آرہے تھے اسلام نے ان کو انھیں حالت میں باقی رکھا اور فارسی حدود ریاست میں مسلم حکمرانوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہاں کے مقامی اصول و نظام حکمرانی میں کوئی رد وبدل کریں، اسی طرح مسلم فاتحین نے ٹیکس وغیرہ محصولات کی وصولی کے لیے مقامی باشندوں کے مزاج وطبیعت اور گزشتہ حکومتوں میں مروجہ اصول وضوابط کے تقاضوں پر عمل کیا، خواہ بیزنطینی عہد حکومت کے قوانین رہے ہوں یا فارسی عہد حکومت کے، کوئی صلح ومصالحت کے ذریعہ سے ان کے زیراقتدار آیا ہو یا جنگ کے ذریعہ سے، ان قدیم قوانین میں انھوں نے نہ کوئی تبدیلی کی اور نہ ہی عمر ( رضی اللہ عنہ ) کے کسی قانون سے رہنمائی حاصل کی۔‘‘[3] دراصل مذکورہ تحقیق کو سپرد قلم کرتے ہوئے کاتب نے ان تحریروں کو نظر انداز کردیا ہے جو بتاتی ہیں کہ سب سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے جنگ میں فتح کردہ اراضی پر خراج مقرر کیا اور اس کو نافذ کرتے ہوئے آپ کو بعض صحابۂ کرام کے اعتراضات اور مباحث کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن بالآخرعمر رضی اللہ عنہ کی رائے پر ہی معاملہ طے ہوا اور سب اسے
Flag Counter