شعبوں میں سے ایک تھے جس پر آپ کافی دقیق نظر رکھتے تھے، مخبروں اور خفیہ ایجنسی کے کارندوں کو ریاستوں میں بھیجتے رہتے تھے کہ وہ وہاں کے حکمرانوں کے حالات سے آپ کو باخبر رکھیں۔[1]ریاست کے گورنروں کو اپنی ریاست اور وہاں کے بیت المال کی آمدنی کے اخراجات کے مکمل اختیارات حاصل تھے چنانچہ خلافت راشدہ کے عہد میں جو لوگ براہ راست بیت المال کے ذمہ دار اعلیٰ ہوتے اور اسی طرح جو لوگ خراج کی آمدنی کے ذمہ دار ہوتے عموماً یہ لوگ اپنی صواب دید سے ریاست کے مفاد میں اور اسلامی کاموں میں اسے خرچ کرتے تھے، مثلاً اس آمدنی کو جہاد ، ہتھیار سازی، سواریوں کی خریداری اور افواج کی تنخواہوں وغیرہ کے لیے استعمال کرتے تھے، اسی طرح ریاست کے سرکاری ملازمین اور اعلیٰ عہدہ داروں کی تنخواہیں بھی خود ہی تقسیم کرتے تھے۔[2]صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات حسب ضرورت اپنی ریاستی آمدنی ہی سے ریاست کے ضروری مقامات پر پل تعمیرکرواتے، تالاب، چشمے اور نہریں کھدواتے۔[3] واضح رہے کہ جن اوقات میں ریاستوں میں خراج یا بیت المال کا محکمہ ریاستی اقتدار اعلیٰ سے آزاد ہو کر مستقل اپنی آئینی حیثیت کرلیتا تھا، ان اوقات میں بھی چونکہ ریاستی گورنران ریاست کے عمومی نگران ہوتے تھے، اس لیے وہ خراج کے کارندوں اور ذمہ داروں کو مذکورہ اسکیموں میں خرچ کرنے کا حکم دینے کے مجاز ہوتے تھے یا خود ان اسکیموں اور منصوبوں کے لیے مخصوص ذمہ دار مقرر کرکے بھیجتے جو ان اسیکموں کو نافذ کرتے اور ریاستی آمدنی سے خراج کے اعلیٰ ذمہ دار جملہ اخراجات سنبھالتے، اس طرح اگر کبھی یہ نوبت آجاتی کہ ریاست کے گورنر سے جبایہ (خراج کی وصولی) کی ذمہ داری ختم کردی جاتی جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے۔[4] تو بیشتر اوقات میں خراج یا بیت المال کے ذمہ داران اعلیٰ کی نگرانی میں اور ان کے توسط سے جہاد یا دیگر تعمیری کاموں کے لیے خراج یا بیت المال کی آمدنی سے رقم خرچ ہوتی رہتی۔ چنانچہ بعض فقہاء اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملکی اموال کو مسلمانوں کے مفاد میں خرچ کرنا اورانھیں منجمد نہ کرنا تمام حکمرانوں پر واجب ہے، کیونکہ جن اموال کو برحق طور سے انھیں مقاصد کے لیے لیا گیا ہے انھیں منجمد کردینا اور مسلمانوں کے مفاد میں خرچ نہ کرنا ظلم کے مساوی ہے۔ اس طرح فقہائے اسلام نے عمومی ملکی آمدنی منجمد کردینے کو ظلم اورحکمرانوں کی کوتاہی میں شمارکیا ہے۔[5] تمام ریاستیں اور بڑے بڑے شہر اپنی عوامی آمدنی اور خراج وغیرہ کی وصولی کے دوسروں سے زیادہ حق دار ہوتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ریاست کے حکمران جب تک اپنے ریاستی مصارف کو پورا نہ کرلیتے، ریاستی آمدنی کو |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |