Maktaba Wahhabi

440 - 1201
لہٰذا جو شخص خود پسندی میں غرق رہا اور اپنی عبادت پر فخر کیا، وہ ہلاک ہوا اور اس کا رب سب کچھ دیکھتا رہا، خودپسند نے خود کو اللہ کے غیض و غضب کے سامنے پیش کیا۔[1] آغاز گفتگو کے طور سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور سے خود پسندی کے دو اسباب ہوتے ہیں: 1: اللہ کے حق سے ناواقفیت اور جس طرح اللہ کی عظمت کرنا چاہیے اس طرح عظمت نہ کرنا، اللہ کے اسماء و صفات کے بارے میں کم علمی اور اسماء و صفات کے ذریعہ سے عبادت میں کمزوری۔ 2: حقیقتِ نفس سے غفلت اور اس کے مزاج سے کم علمی، اس کے عیوب اور بیماریوں سے جہالت اور محاسبہ و مراقبہ نفس سے گریز۔[2] جب مرض کی تشخیص ہوگئی تو اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ کے اسمائے حسنی اور بلند و بالا صفات کی معرفت کے ذریعہ سے اللہ کی حقیقی معرفت سے آشنائی ہو، اس کی عظمت و منزلت کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کیا جائے، اس کے لیے مکمل بندگی کی جائے، تمام تر بھلائیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں اور اس کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے۔ اللہ کا اعلان تو یہ ہے: وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ ۖ (النحل:53) ’’اور تمھارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب تمھیں اپنے کسی عمل پر خود پسندی کے حملہ آور ہونے کا خوف ہو تو یاد کرلیا کرو کہ وہ عمل تم کس کی رضا کے لیے کر رہے ہو، کس نعمت کے خواہاں ہو اور کس سزا کا تمھیں خوف ہے، جس نے یہ سوچ لیا اسے اس کا عمل چھوٹا نظر آنے لگے گا۔[3] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: علم سے خود پسندی دور بھگانے کا طریقہ یہ ہے کہ عالم یہ تصور قائم کرے کہ علم اللہ کا ایک فضل اور ادھار ملا ہوا احسان ہے جس سے میں نوازا گیا ہوں۔ اسی کا تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے عطا کیا ہے، ہر چیز اس کے نزدیک ایک مقررہ وقت تک کے لیے ہے، لہٰذا انسان کو کسی ایسی چیز پر ہرگز غرور نہ کرنا چاہیے جسے اس نے ایجادنہیں کیا اور وہ اس کا مالک بھی نہیں ہے اور نہ ہی اسے یقین ہے کہ یہ چیز ہمیشہ اس کے پاس رہے گی۔[4] علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: معلوم ہوناچاہیے کہ جب کوئی بندہ رضائے الٰہی کا طالب بن کر، اپنے اوپر اللہ کے انعامات و احسانات کا جائزہ لیتے ہوئے نیکی کی کوئی بات، یا نیک عمل کرتاہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جو میں نیکی کرنے جارہا ہوں یہ اللہ کی توفیق سے ہے، اس میں اس کے اپنے ذہن و دماغ اور طاقت و قوت کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اگر یہ سب احساسات اور قوت و دماغ ہیں بھی تو انھیں اس اللہ نے پیدا کیا ہے جس نے زبان، دل، آنکھ اور کان دیے، اور اسی نے یہ موقع دیا کہ میں نیک بات یا عمل کرنے جارہا ہوں، غرض یہ کہ یہ خیالات و احساسات
Flag Counter