جب تک بندہ کی نگاہ کے سامنے نہ ہوں گے تب تک وہ خود پسندی اور غرور کا شکار نہ ہوگا کہ جس کی اصل وجہ احسان الٰہی کی ناسپاسی اور اپنی انا کا احساس ہے۔[1] خود پسندی کا دوسرا علاج نفس کی حقیقت و مزاج سے واقفیت اور اس کا محاسبہ ہے۔ علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص اپنے خصائل اور گناہوں پر نظر ڈالے گا وہ جان لے گا کہ یقینا میں گناہوں اور کوتاہیوں میں ڈوبا ہوا ہوں اور یہ دوسرے کی جہالت کے سلسلہ میں شک میں ہوگا، چنانچہ خود پسندی سے ہمیشہ خبردار اور اخروی اعمال میں پیش پیش رہنے کی ضرورت ہے، مومن ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے، عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا کہ جب آپ کی وفات ہوجائے گی تو ہم آپ کو حجرۂ رسول میں دفن کردیں گے، آپ نے فرمایا: شرک کے علاوہ ہر گناہ کے ساتھ اللہ سے ملنا مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں خود کو اس مقام کا اہل سمجھوں جس کا تم لوگ ذکر کر رہے ہو۔[2] علامہ ابن حزم فرماتے ہیں جو شخص خودپسندی میں گرفتار ہو اسے چاہیے کہ اپنی خامیوں پر نگاہ ڈالے، اگر اسے اپنی خوبیاں ہی خوبیاں نظر آئیں تو اسے اخلاق رذیلہ کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے، اگرپھر بھی اسے کوئی خامی نظر نہ آئے اور اپنے کو عیوب سے بالکل مبرّا جانے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ہمیشہ کے لیے مصیبت میں گرفتار ہے، وہ انسانوں میں بظاہر کامل ہے لیکن حقیقت میں یکسر ناقص ہے، وہ سب سے بڑے عیب کا شکار اور ناقص ترین تمیز کا حامل ہے، بلکہ یوں کہو کہ وہ کم عقل اور جاہل ہے اور ان دونوں سے بڑا کوئی عیب نہیں۔ اس لیے کہ عقل مند وہ ہے جو اپنے عیوب کی تمیز کرلے، پھر اس پر غالب آجائے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرے اوراحمق وہ ہے جو اپنے عیوب کو نہ پہچان سکے، اگر تمھیں اپنی خود رائی پر ناز ہے تو اپنی لغزشوں کی بھی فکر کرو، انھیں یاد رکھو، بھولو نہیں، کوئی بھی رائے جسے تم درست سمجھتے ہو حالانکہ درستگی تمھاری رائے میں نہیں ہوتی، تمھارے علاوہ دوسرے کی ر ائے درست ہوتی ہے اور تم غلطی پر ہوتے ہو پھر بھی تم اپنی رائے اور علم پر قائم رہتے ہو تو جان لو تمھیں کچھ بھی علم اور رائے نہیں، یہ بس اللہ کی نوازش تھی جس سے تم نواز دیے گئے، اس نعمت کو اس طرح نہ استعمال کرو کہ جس سے اللہ ناراض ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کسی وجہ سے بطور آزمائش تم سے اس علم اور رائے کو چھین لے، پھر تم جو کچھ سیکھو اور یاد کرو وہ بار بار بھول جایا کرے، کسی سے اپنی تعریف و ستائش سن کر اگر تمھیں خود پر نازہونے لگے تو اپنے بارے میں اپنے دشمن کے تبصروں کو سوچ لیا کرو، تم سے خود پسندی دور چلی جائے گی، اگر کوئی تمھارا رقیب نہ ہو تو تمھارے لیے بھلائی نہیں، جس کا کوئی رقیب نہ ہو اس کے مقام و مرتبہ سے کمتر کسی کا مقام و مرتبہ نہیں وہ تو ایسے آدمی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے پاس اللہ کی کوئی نعمت نہیں ہے کہ جس پر حسد کیا جائے۔ (عَافَانَا اللّٰہَ ِمْن ذِلٰکَ) لہٰذا اگر تم اپنے عیوب کو حقیر سمجھتے ہو تو ذرا باہر نکل کر لوگوں سے ملو اور دیکھو وہ تمھارے بارے میں کیا کہتے ہیں، اس وقت تم شرمندہ ہوگے اور اپنی خامی کو پہچانو گے۔[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |