شریعت پر عمل کرنے والوں کو دوران عمل لاحق ہوتا ہے، خود پسندی ایک بیماری ہے جو اخلاص سے یکسر خلاف ہے، یہ کسرِ نفسی اور تواضع سے باغی ہے، یہ اللہ کے ساتھ بے ادبی کا ایک مظہر ہے، یہ بیماری خود پسند کو محاسبہ نفس سے کنارے لگا دیتی ہے۔ خودپسند اندھا ہوجاتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ نفس کی بیماریاں اور اس کے عیوب کیا ہیں، لیکن ہر چند کی اس کی آفات بے شمار ہیں اور سماج کا ایک ناسور بن چکی ہیں، تاہم اس کے بارے میں گفتگو مختصر ہوگی۔ عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خود پسندی یہ ہے کہ تم سوچو میں جتنا قابل ہوں اور میرے پاس جو ہے دوسرا اتنا قابل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنا ہے۔[1] علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ریاکاری اور خود پسندی کے درمیان فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خود پسندی، ریاکاری کے قبیل سے ہے البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ریاکاری میں مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے جب کہ خود پسندی میں نفس کو اللہ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے۔ اس طرح ریاکار اللہ کے فرمان إِيَّاكَ نَعْبُدُ یعنی ’’اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘ کے تقاضا کو پورا نہیں کرتا۔ اور خود پسند إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی ’’تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ کے تقاضا کو پورا نہیں کرتا، پس جو شخص إِيَّاكَ نَعْبُدُ کے تقاضوں کو پورا کرے گا وہ ریاکاری اور جو إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے تقاضوں کو پورا کرے گا وہ خود پسندی سے نکل جائے گا۔ [2] علامہ غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: معلوم ہونا چاہیے کہ خود پسندی کی بے شمار آفات ہیں، یہ تکبر و غرور کو دعوت دیتی ہے اور تکبر و غرور کی جو آفات ہیں وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ یہ ایسی بیماری ہے جو گناہوں کو حقیر کرکے پیش کرتی ہے اور خود پسند گناہوں کا عادی ہوجاتا ہے، جب کہ عبادت گزاری کو اپنا کمال سمجھتا ہے، اس پر فخر کرتاہے اور اس کے ذریعہ سے اللہ پر احسان جتاتا ہے، خود پسند بھول جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس پر اللہ کے انعامات ہیں، اس کی توفیق اور قدرت سے اسے یہ سب عبادات میسر ہوئی ہیں، خود پسند ’’ہم چنیں دیگرے نیست‘‘ میں مبتلاہوتاہے، خود کو اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت سے مامون سمجھتا ہے اور اس خیال میں گم رہتا ہے کہ میرا تو اللہ کے نزدیک بڑا مقام ہے،یہاں تک کہ وہ خود اپنے منہ اپنی تعریف کرنے لگتا ہے اور اپنی پاکیزگی کا دعویٰ کرتا نظر آتا ہے۔ [3] علامہ قرافی فرماتے ہیں: خود پسندی کی حرمت کا راز یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے ادبی کی جاتی ہے، بندہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس عمل کے ذریعہ سے اپنے مالک کی رضا و قربت کا طالب ہو اسے وہ اپنا بڑا کارنامہ سمجھے، بلکہ اپنے مالک کی بڑائی کے مقابلہ میں اپنے کام کو چھوٹا اور حقیر جانے، خصوصاً اللہ کی عظمت کے سامنے، اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے: وَمَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ (الزمر:67) ’’اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |