Maktaba Wahhabi

437 - 1201
’’ریا یہ ہے کہ بروز قیامت جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا تو فرمائے گا: جاؤ ان لوگوں کے پاس جن کے دکھاوہ کے لیے تم کرتے تھے، دیکھو کیا ان کے پاس تم کوئی بدلہ پاتے ہو۔‘‘ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم لوگ ریاکاری کو شرک اصغر شمار کرتے تھے۔[1] چنانچہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دل کی ایک ایسی خطرناک بیماری سے ڈرایا جس کا تعلق انسان کی نیت اور اس کے ارادہ سے ہے، ساتھ ہی آپ نے لوگوں کو صرف اللہ کی عبادت اور اس کی رضا کے لیے عمل کرنے اور سنت نبوی کو لازم پکڑنے پر ابھارا، آپ فرماتے ہیں: عمل کے بغیر کوئی قول نفع بخش نہیں اور نیت کے بغیر کسی عمل کا اعتبار نہیں اور سنت کی موافقت کے بغیر کوئی نیت معتبر نہیں۔[2] فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ (الملک:2)’’تاکہ وہ (اللہ) آزمائے کہ تم میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے۔‘‘ فرمایا: أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ کا مطلب ہے خالص اور درست عمل۔ لوگوں نے پوچھا: خالص اور درست عمل کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر عمل میں اخلاص ہو اور درست نہ ہو تو وہ عمل قبول نہیں ہوتا اور اگر عمل درست ہو، لیکن اخلاص نہ ہو تو وہ عمل قبول نہیں ہوتا، تو کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص اور درستگی ضروری ہے۔ عمل خالص کا مطلب ہے کہ صرف اللہ کے لیے ہو اور درستگی کا مطلب ہے کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو۔[3] ریاکاری کی مختلف اشکال ہیں، کچھ کا تعلق اعمال سے ہے جیسا کہ کوئی شخص جب دیکھے کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں تو لمبی رکعت، طویل رکوع، طویل سجدہ کرے اور خوب خشوع و خضوع کا اظہار کرے اور کچھ ریاکاریوں کا تعلق قول سے ہے جیسا کہ دکھاوے کے لیے وعظ و نصیحت اور تقریریں کرنا، گفتگو اور مناظرہ میں فائق ہونے اور ہمہ دانی کا اظہار کرنے کے لیے اخبار و آثار کو حفظ کرنا، تنہائی میں بے پرواہ رہنا اور لوگوں کی مجلس میں ذکر و اذکار کو ظاہر کرتے ہوئے دونوں ہونٹوں کو حرکت دینا۔ اسی طرح لباس و ہیئت سے بھی ریاکاری ہوتی ہے، جیسا کہ پیشانی رگڑ کر سجدہ کے نشانات بنانا، موٹا اور سستا کپڑا پہننا اور اسے چڑھائے رکھنا تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں بہت عبادت گزار اور پرہیزگار ہے۔ یا علماء جیسا مخصوص طبقہ کا خاص لباس پہننا تاکہ لوگ ایسے لباس پوش کو عالم سمجھیں، اسی طرح ریاکاری کا تعلق رفقاء و زائرین سے بھی ہے، اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جیسے کوئی شخص کسی بڑے عالم یا عابد کو بتکلف زیارت کرے تاکہ لوگ یہ کہیں فلاں صاحب کو فلاں کی زیارت کا شرف حاصل ہے، یا لوگوں کو اپنی زیارت کی دعوت دے تاکہ لوگ یہ کہیں کہ فلاں کے پاس اکثر اہل خیر زیارت کرنے آیا کرتے ہیں، اسی طرح کسی شخص کا باتوں باتوں میں اکثر یہ کہہ دیا کرنا کہ ہمارے اساتذہ و مشائخ بہت زیادہ ہیں، تاکہ وہ اس پر فخر کا اظہار کرے کہ اس نے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیاہے، یا اسی طرح دنیا داروں کے لیے ریاکاری مقصود ہو، مثلاً اکڑکر اور
Flag Counter