اس خطبہ میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ دو ایسی مہلک بیماریوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو انسانی معاشرہ کے لیے ناسور ہیں، ان میں سے ایک لمبی عمر پانے اور طویل امیدیں باندھنے کی بیماری ہے، حالانکہ یہ بیماری انسان کو دھوکا میں رکھتی ہے، اسے دنیاوی منصوبوں اور آرزوؤں میں الجھائے رکھتی ہے، اسے یہ کہہ کر ورغلاتی ہے کہ عمر تو لمبی ہے، نیک اعمال بعد میں کرلینا، اسے آخرت سے غافل کردیتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس دنیاوی اعمال کا انبار لگ جاتا ہے اور اخروی اعمال نہایت تھوڑے ہوتے ہیں، اگر ہر انسان کو یہ بات ذہن نشین ہوجائے کہ موت کسی بھی لمحہ ہمیں اپنے گرفت میں لے سکتی ہے تو اس کی دنیاوی کدوکاوش صرف بقدر ضرورت ہوگی اور آخرت کے لیے اس کے اعمال میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس لیے کہ مرنے کے بعد کی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ دوسری بیماری نفس پرستی ہے، یہ ایسی بیماری ہے جو نفس پرست کے نظریات و خیالات کو بدل دیتی ہے اور خواہشات نفس کی تکمیل ہی کو اس کے افکار و ہموم کا عظیم ترین مقصد بنا دیتی ہے اور بلند ترین اسلامی مقصد، یعنی دنیا میں رضائے الٰہی اور جنت میں اس کے فضل و احسان کی جستجو کو بھلا دیتی ہے اور جب افکار و خیالات کے انداز و مقاصد بدل جاتے ہیں تو اعمال کے رخ اور طریقے بھی بدل جاتے ہیں، چنانچہ دنیاوی خیالات اور کاوشیں مقاصدِ دنیا کے حصول تک محدود رہتی ہیں اور پھر اسی بنیاد پر تعلقات و روابط کے مقاصد بھی مختلف ہوجاتے ہیں، اخوت وبھائی چارگی ایمان اور تقویٰ کے بجائے دنیاوی مفاد و مصالح کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے، علاوہ ازیں کئی اور خرابیاں لازم آتی ہیں جو کہ انھیں مقاصد کے اختلاف پر مبنی ہوتی ہیں۔[1] (3) ریاکاري: امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی نیکی دکھاوے کے لیے نہ کرو اور کوئی بھی نیکی شرم کی وجہ سے نہ چھوڑو۔[2] آپ فرماتے ہیں: ریاکار کی تین علامات ہیں: (1) تنہا رہے تو سستی اور کاہلی کرے۔ (2) لوگوں میں رہے تو چاق و چوبندنظر آئے۔ (3) تعریف سن کر عمل بڑھا دے اور تنقیص سن کر عمل کم کردے۔ [3] اسلام کی نگاہ میں ریاکاری شرک اصغر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ۔)) ’’میں تمھارے بارے میں سب سے زیادہ شرک اصغر سے خوف کھاتا ہوں۔‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! شرک اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ((اَلرِّیَائُ، یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالیٰ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جَازَی النَّاسُ بِأَعْمَالِہِمْ، اِذْہَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَرَائُ وْنَ فِی الدُّنْیَا فَانْظُرُوْا ہَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَہُمْ جَزَائً۔))[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |