Maktaba Wahhabi

433 - 1201
اور جن گناہوں کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے معاف کردے، تو پہلے بھی ہے اور پیچھے بھی ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔‘‘ (3) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ: امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کیا کہ میرے ساتھی اللہ کی اطاعت میں کسی قدر غفلت اور سستی کرنے لگے ہیں توانھیں ان کے اسلاف یعنی اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سیرت یاد دلائی جائے، چنانچہ ابواراکہ کا بیان ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو آپ دیر تک بیٹھے رہے جیسا کہ آپ کسی پریشانی میں مبتلا ہوں، یہاں تک کہ جب دھوپ مسجد کی دیوار پر ایک نیزہ کی مقدار میں چڑھ آئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنے ہاتھ کو پلٹ کر یہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، آج میں لوگوں کی زندگی میں ان صحابہ کی طرح کوئی آدمی نہیں دیکھ رہا ہوں، وہ خالی ہاتھ صبح کرتے، ان کا رنگ زرد، بال پراگندہ اور جسم گرد آلود یعنی تھکا ماندہ ہوتا، ان کی پیشانی پر بکری کے گھٹنوں کی طرح نشانات ہوتے، اللہ کے سامنے سجدہ اور قیام کی حالت میں وہ رات گزارتے، کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے، کبھی اپنی پیشانیوں کو اللہ کی اطاعت میں جھکاتے، کبھی قدموں پہ دست بستہ قیام کرتے، جب صبح کو اٹھتے تو ذکر الٰہی میں ایسے جھوم اٹھتے جیسا کہ آندھی کے دن میں درخت جھومتے ہیں۔[1] ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایسی جھڑی لگ جاتی کہ ان کے کپڑے بھیگ جاتے، اللہ کی قسم! ایسے لگتا تھا کہ انھوں نے ہر چیز سے غافل ہو کر صرف اللہ کے لیے رات گزاری ہے۔ پھر علی رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے، اس کے بعد زندگی کے آخری لمحات تک یعنی اللہ کے دشمن، بدبخت ابن ملجم کے ہاتھوں قتل کیے جانے تک آپ کبھی سست اور ہنستے ہوئے نظر نہ آئے۔[2] (4) سیّدنا علي رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو فضائل اعمال پر ابھارتے ہیں: آپ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’میں تمھیں اللہ سے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں، سب سے افضل چیز جس کے ذریعہ سے بندہ اللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے وہ ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ ہے اور میں تمھیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمۂ اخلاص (توحید) پر قائم رہو، کیونکہ وہی فطرت اسلام ہے، نماز قائم کرو، کیونکہ وہی دین و ملت ہے۔ زکوٰۃ ادا کرو وہ اسلام کا اہم فریضہ ہے۔ رمضان کے مہینہ میں روزے رکھو وہ عذاب الٰہی سے بچاؤ کے لیے ڈھال ہیں۔ خانہ کعبہ کا حج کرو وہ گناہوں کو روند ڈالتا ہے اور انھیں دور بھگادیتا ہے۔ صلہ رحمی کرو وہ موت کو مؤخر کرتی ہے اور اقرباء و اہل و عیال میں محبت پیدا کرتی ہے، چپکے چپکے صدقہ کرو وہ غلطیوں اور گناہوں کے لیے کفارہ ہے۔ اور رب کریم کے غصہ کو بجھاتا ہے، دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو وہ بری موت کو ٹالتی ہے اور بھیانک حادثات سے محفوظ رکھتی ہے، کثرت سے اللہ کا ذکر کرو، وہ سب سے بہتر ذکر ہے۔‘‘[3]
Flag Counter