Maktaba Wahhabi

395 - 1201
چنانچہ اللہ کے اسمائے حسنی او ربلند و کامل صفات کی معرفت کی اسی اہمیت کے پیش نظر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے علم طلب کرنے والے! عالم کی تین نشانیاں ہیں: اسے اللہ کا علم ہو، اللہ کی پسندیدہ چیزوں کا علم ہو، اور اس کی ممنوعات و محرمات کا علم ہو۔‘‘[1] آپ نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی اوصاف کاملہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ ہر زمان و مکان حتی کہ ہر ہر لمحہ کا عالم ہے، کسی بنیادی خاکہ کو سامنے رکھ کر اشیاء کی تخلیق نہیں فرمائی، نہ ہی کسی چیز کی مثال سامنے تھی، بلکہ جو کچھ بھی پیدا کیا برجستہ پیدا کیا اور درست و مضبوط پیدا کیا، جس چیز کی تصویر بنائی نہایت عمدہ بنائی۔ اپنی بلندی میں یکتا ہے، لیکن کوئی صدا اس تک پہنچنے سے مانع نہیں، اور کسی مخلوق کی عبادت اس کے لیے نافع نہیں، اس کے نزدیک دعاؤں کی قبولیت کی رفتار بہت تیز ہے، آسمانوں اور زمینوں میں فرشتے اس کے لیے ہمہ وقت مطیع ہیں۔ مدتوں قبل فوت ہونے والے انسانوں کا اسے ایسے ہی علم ہے جیسا کہ زندہ چلنے پھرنے والوں کا۔ وہ بلند آسمانوں کی ایسے ہی خبر رکھتا ہے جیسا کہ زمین اور اس کی تمام چیزوں کی، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، مختلف آوازوں کی گونج اور زبانوں کا اختلاف اس کے لیے باعث حیرت و پریشانی نہیں، وہ مدبر اور بصیر ہے، ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے، وہ پاک ہے اور اس بات سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ اس کی صفات کی کیفیت بیان کی جاسکے۔‘‘[2] امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور پوچھنے لگا کہ ہمارا رب کب تھا؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ غصے سے بدل گیا اور کہا: کیا وہ نہیں تھا، پھر ہوا؟ وہ ازل سے ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں، وہ تھا اس کی کیفیت نہیں بیان کی جاسکتی، وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا، وہ ہر انتہا کی انتہا ہے اس کے بعد کوئی انتہا نہیں، یہ سن کر یہودی اسلام لے آیا۔[3] اللہ کی صفات کے بارے میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (( اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِیْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِیْ عَلَی الْعَنْفِ۔))[4] ’’اللہ تعالیٰ نرم دل ہے، نرمی کو پسند کرتاہے، اور نرم دلی برتنے پر وہ کچھ دیتا ہے جو سخت دلی پر نہیں دیتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے معرفت، ان کے معانی و مفاہیم پر غور اور ان پر ایمان لانے سے بندہ کے دل میں اللہ کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوتی ہے اور پھر ان کے نتیجہ میں وہ اللہ کے احکامات و ممنوعات کا پابند ہوتا ہے، مصائب و مشکلات کی گھڑیوں میں اللہ ہی کی پناہ ڈھونڈھتا ہے، اپنی ضرورتوں کو اسی سے مانگتا ہے اور ناگہانی آفات پر اسی سے فریاد کرتا ہے اور اس طرح دیگر تمام قلبی عبادات کو اللہ کے لیے خالص کردیتا ہے۔[5]
Flag Counter