چیز کو اپنے جیسے کسی انسان کے ہاتھوں پارہا ہے تو گویا اللہ تعالیٰ نے اسے سبب بنا دیاہے، اور اسباب کا خالق اللہ ہی ہے۔ یہ اسباب زندوں کی حرکت سے ہوں جو کہ ان کے اختیار و ارادہ سے ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ ملائکہ، جنات انسان اور جانوروں کی حرکت و عمل سے نفع رسانی یا ضرر رسانی۔ یا جمادات کی حرکت و عمل کی شکل میں نمودار ہوں، جن میں اللہ نے کچھ طبعی خصوصیات رکھ دی ہیں اور انھیں مسخر کردیا ہے جیسا کہ پانی اور ہواؤں کی حرکت۔ بہرحال ان تمام اسباب کا خالق اللہ ہی کی ذات ہے، اس سے بڑھ کر کسی کی طاقت و قوت نہیں۔[1] وہ جو چاہتا ہے ہوتاہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا، لہٰذا پوری کی پوری امید صرف اللہ سے لگائی جائے، توکل اسی پر ہو، دعا صرف اسی سے کی جائے، اگر اس نے بندہ کی طلب کو چاہ لیا اور اس کا حصول آسان کردیا تو وہ مراد پوری ہوگی، اور اس کا حصول آسان ہوگا اگرچہ دنیا کے سارے انسان اسے نہ چاہیں اور اگر اس نے نہیں چاہا، نہ ہی آسانی پیدا کی تو وہ ہرگز نہیں ہوسکتی اگرچہ ساری دنیا کے لوگ اسے چاہیں۔[2] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے فرمان: ’’کوئی شخص امید لگائے تو صرف اپنے رب سے‘‘ کے یہ چند تقاضا و معانی تھے جنھیں ذکر کیا گیا۔ رہا آپ کا یہ فرمان کہ ’’بندہ اگر ڈرے تو صرف گناہوں کی وجہ سے‘‘ تو اس کی تائید متعدد آیات اور فرموداتِ ربانی سے ہوتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ (الاعراف:131) ’’تو جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے یہ تو ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہا کہ حسنہ یعنی خوش حالی اللہ کی طرف سے ہے اور وہی لوگوں پر یہ انعام کرتاہے، جب کہ سیئہ یعنی بدحالی و مشکلات انسانوں کو اپنے گناہوں کی وجہ سے اٹھانا پڑتی ہے۔ اللہ نے فرمایا: وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿٣٣﴾ (الانفال:33) ’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے، جب کہ تو ان میں ہو اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔‘‘ پس اللہ کا واضح اعلان ہے کہ استغفار کرنے والے کو وہ عذاب نہیں دے گا، اس لیے کہ استغفار گناہوں کو دھو دیتی ہے اور گناہ ہی عذاب کا سبب ہوتے ہیں، لہٰذا جب گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں تو عذاب بھی نہیں آتا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللّٰہُ لَہٗ مِنْ کُلِّ ہَمِّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجًا وَ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |