Maktaba Wahhabi

365 - 1201
کھائے۔(3) اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا جواب وہ نہیں جانتا تو یہ کہتے ہوئے ہرگز شرم نہ محسوس کرے کہ میں نہیں جانتا۔ (4)یاد رکھو! ایمان میں صبر کی وہی اہمیت ہے جو سر کی اہمیت جسم میں ہے، ایسے جسم کی کوئی وقعت نہیں جو بغیر سر کے ہو۔‘‘[1] آپ کی یہ نصیحت بڑی گراں قدر نصیحت ہے۔ آپ نے عقیدۂ توحید کی درستگی واصلاح کی جانب سب سے پہلے توجہ دلائی اور پھر علم کے آداب سکھائے۔ پس حقیقی مومن صرف اور صرف اللہ سے امید لگاتا ہے، اس لیے کہ تنہا اسی کی ذات انعامات کا فیضان کرنے والی ہے، اس کی مخلوقات کے ہاتھوں سے ایسے مومن کو جو کچھ عطیات و نوازشیں ملتی ہیں ان کا حقیقی عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے۔ مخلوقات تو محض ایک سبب اور ذریعہ ہیں۔ حقیقی مومن صرف اور صرف اللہ سے ڈرتا ہے، اس لیے کہ وہی اس کے نفع و نقصان کا مالک ہوتا ہے، اس کی وہ مخلوقات جن سے لوگ خوفزدہ رہتے ہیں اور ان کے شرسے گھبراتے ہیں، ان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے، وہ سب اللہ کے قبضہ و گرفت میں ہیں۔ اور سچائی و دانائی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب تنہا اللہ ہی کی ذات خالق، رازق، مالک اور ہر چیز پر قادر ہے، تو بھلا مومن اس کے علاوہ کسی اور سے امید ہی کیوں لگائے؟ یا دوسرے سے کیوں ڈرے۔ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے خوف الٰہی کو گناہوں کے خوف سے تعبیر کیا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گناہوں کے انجام یعنی عذاب الٰہی سے انسان خبردار رہے، گویا سب سے اہم راستہ کی طرف رہنمائی ہے جس کے ذریعہ سے انسان خوف الٰہی کی منزل تک پہنچ سکتاہے۔ اس کے بعد آپ نے کچھ آداب تعلّم سکھائے، اس لیے کہ دینی مسائل کو تعلیم و تعلّم ہی سے حاصل کیا جاسکتاہے، چنانچہ آپ نے متعلّم کے آداب بتائے کہ وہ علم حاصل کرنے میں شرم و حیاسے باز رہے، بڑھاپا یا کمزوری حصول علم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اسی طرح معلم کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ جس مسئلہ میں اسے حکم نہ معلوم ہو تو یہ کہتے ہوئے شرم محسوس نہ کرے کہ میں نہیں جانتا، اس لیے کہ اسی میں اس کے دین اور پوچھنے والے کے دین کی سلامتی ہے۔ پھر آپ نے اپنی قیمتی نصیحت کو ایمان کی اصل اہمیت پر ختم کیا، یعنی صبر کے مقام و مرتبہ کو واضح کیا، آپ صبر کو ایمان میں وہی درجہ دیتے ہیں، جو سرکا درجہ جسم میں ہوتا ہے۔ صبر کی اتنی عظیم اہمیت اس لیے ہے کہ تمام تر معاملات کی کامیابی خواہ ان کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے صبر ہی پر ہے۔[2] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے بچپن ہی سے مختلف صبر آزما مراحل مثلاً خفیہ طریقہ سے قبول اسلام، غزوات و سرایا میں شرکت، خلافت راشدہ کے نازک ترین مسائل کی تحلیل اور اپنے دور خلافت کے فتنوں اور تشویشناک حالات کا سامنا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ شہید کردیے گئے۔ آپ کی صبر آزما زندگی کے یہ تمام مراحل آج کے داعیان اسلام و مصلحین امت کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ دعوت الی اللہ کے میدان میں کس قدر صبر و تحمل اور مالی قربانی کی
Flag Counter