کہاں ڈھونڈتے بالخصوص جب کہ باغیوں سے قتال کے سلسلہ میں ان کے سامنے خلفائے راشدین میں سے اور کسی کی کوئی سنت موجود نہ تھی۔ پھر آگے چل کر امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حالانکہ امام احمد اور ائمہ سنت میں سے کسی کو اس بات میں کوئی تردّد نہیں۔[1] ہاں اگر کوئی اعتراض کرے کہ عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت معرکۂ صفین میں ہوئی اور وہ اس وقت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے جب کہ ان کے مقابلہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت تھی، جس میں صحابہ کرام بھی شریک تھے، لہٰذا ان کے بارے میںیہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ جہنم کی طرف بلارہے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے علم اوراجتہاد کے مطابق یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ فریق مخالف کو جنت ہی کی طرف بلارہے ہیں۔ اپنے علم و اجتہاد کے مطابق عمل پیرا ہونے میں وہ قابل ملامت ہر گز نہیں ہوسکتے اورجنت کی طرف بلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ اس عمل کی طرف دعوت دے رہے تھے جو دخول جنت کا سبب تھا یعنی امام کی اطاعت۔ عمار رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی طرف بلارہے تھے کیونکہ وہی اس وقت مسلمانوں کے امام تھے جن کی اطاعت واجب تھی جب کہ فریق مخالف کا معاملہ اس کے برعکس تھا، لیکن چو ں کہ یہ لوگ اپنے اجتہاد و تاویل کی بنا پر ایسا کر رہے تھے اس لیے معذور سمجھے جائیں گے ان پر کوئی ملامت نہیں۔ [2] ا مام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرمان نبوی ’’ بُؤسِی ابْنُ سُمَیَّۃَ تَقْتُلُہُ فِئَۃٌ بَاغِیَۃٌ‘‘[3]کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’علماء کاکہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی قوی اور ٹھوس دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے فیصلہ میں برحق اور اجتہاد میں درستگی پر تھے اور دوسری جماعت باغی تھی، لیکن چونکہ دوسری جماعت کا اقدام ان کی اجتہادی غلطی پر مبنی تھا اس لیے وہ اس معاملہ میں گناہ گار نہیں کہے جائیں گے۔ نیز اس حدیث میں کئی طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کا ظہور ہے، مثلاً آپ نے یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ عمار کی موت قتل کے ذریعہ سے ہوگی اور قاتلین مسلمان ہی ہوں گے، وہ بغاوت کرنے والے ہوں گے، نیز یہ کہ صحابہ کرام باغی اور غیر باغی دو دھڑوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ چنانچہ یہ ساری باتیں صبح کی سفیدی کی طرح صاف صاف منظر عام پر آئیں، اللہ کی رحمتیں نازل ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کہ بات خواہشات نفس کے تابع ہوکر نہیں بولتے، بلکہ وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے جو ان کی زبان پر نازل ہوتی ہے۔ ‘‘[4] 5: ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تَمْرَقُ مَارِقَۃٌ عِنْدَ فُرْقَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَقْتُلُہَا أَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ۔)) [5] ’’جب مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جانے کے وقت ایک فرقہ نکلے گا اسے دونوں میں سے جو حق سے زیادہ قریب ہوگا وہی قتل کرے گا۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |