Maktaba Wahhabi

295 - 1201
ساتھ ایمان اور عمل صالح بھی ضروری ہیں، اور چونکہ مغفرت اور اجر عظیم کے وعدہ کی تکمیل کے لیے یہ دونوں ضروری تھے ان کو ذکر کیا اگرچہ تمام صحابہ اس سے متصف بھی تھے پھر بھی اسے اس لیے الگ سے ذکر کیا گیا تاکہ کسی کو یہ وہم نہ ہوجائے کہ صرف مذکورہ اوصاف حمیدہ ہی نجات کے لیے کافی ہیں، شروع آیات صرف اوصاف، آخر میں اجر عظیم سے بدلہ کا ذکر ہوا تھا، لیکن اس بدلہ کا اصلی سبب کیا تھا اس کا ذکر نہیں ہواتھا، پس ایمان اور عمل صالح کو ذکر کرکے اس اجمال کو واضح کردیا گیا، کیونکہ اصولی قاعدہ کے اعتبار سے جب کوئی حکم کسی ایسے اسم مشتق پر منحصر ہو جو سیاق وسباق سے مناسب ہو تو جس کلمہ سے اس اسم کا اشتقاق ہوا ہے وہی حکم کا سبب ہوتا ہے ۔[1] میں نے صحابہ کرام کے درمیان میل محبت اور اخوات وہمدردی، کفار کے لیے سختی اور خصوصاً خلفائے راشدین کے آپس میں گہرے تعلقات اور خیر خواہی کے جذبات کے تعلق سے جو کچھ ذکر کیا ہے، وہ مکمل طور سے قرآنی توضیح وبیان کے مطابق ہیں، بلاشبہ یہ خلفاء صحابہ انتہائی معزز وشریف تھے، پوری امت کا دماغ تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس کے بے مثال قائد تھے لہٰذا باہوش! خبردار ! ان ضعیف روایات اور جھوٹے قصوں وخرافات سے جنھیں دشمنان اسلام نے اسلام کی ابتدائی روشن تاریخ کے چہرہ کو مسخ کرنے کے لیے گھڑا اور رواج دیا ہے۔ کیا ہم ان جھوٹی روایات اور واہی تباہی قصوں کی تصدیق کریں گے، جو خلفائے راشدین میں باہمی چپقلش اور عداوت کا تصور پیش کرتی ہیں یا اپنے رب کی کتاب قرآن مجید کی تصدیق کریں گے اور عظمت صحابہ کی شان میںہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ فرمایا ہے اسے مانیں گے اور اہل سنت وجماعت کے ثقہ ومستند علماء نے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی جو تصویر کشی کی ہے اسے تسلیم کریں گے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٣﴾ (الانفال :63) ’’اور ان کے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، اگر تو زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتا ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈالتا اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ صحابۂ کرام کی حقیقی باہمی الفت ومحبت کی یہ قرآنی توضیح و توثیق ہے اس پاک نفس جماعت کے لے یہ تحفہ ربانی اور انعام الٰہی ہے، اس میں کسی انسان کی کوئی مداخلت نہیں پس قرآنی توصیف وبیان کے بموجب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایک عظیم احسان ہے، صحابہ کرام کی عظمت وشان امتیازی کی یہ قرآنی تصویر کشی ان صحیح روایات سے مکمل طور سے میل کھاتی ہے جن میں صحابہ کی آپسی محبت والفت کو سراہا گیا ہے اور اسی صاف شفاف وحقیقی آئینہ میں وہ داغ دار چہرے نمایاں نظرآتے ہیں جنھوں نے خود ساختہ روایا ت اور بے بنیاد واقعات کا پروپیگنڈا کیا ہے۔ بہرحال یہ آیت کریمہ ان تمام لوگوں کی فضیلت وبرتری پر شاہد ہے جو قرآنی تعلیمات اور سنت نبویہ کے سانچے میں اپنی
Flag Counter