Maktaba Wahhabi

294 - 1201
يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑی ہوگئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗتاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت کے مطابق اس آیت کریمہ سے روافض کی تکفیر کا فتویٰ مستنبط کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ کافروں کے کفر کی ایک وجہ ہے کہ وہ صحابہ کو دیکھ کر چڑتے ہیں، لہٰذا جو شخص بھی ان صحابہ سے چڑکھائے وہ اس آیت کی روشنی میں بہرحال کافر ہے، علماء کی ایک جماعت نے بھی امام مالک کے اس فتویٰ کی تائید کی ہے۔ آگے اللہ نے فرمایا: وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٩﴾ یعنی اللہ نے ایمان والوں، اور عمل صالح والوں سے بڑے ثواب اور باعزت روزی کا وعدہ کیا ہے۔ اور اللہ کا وعدہ حق اور سچ ہے جس کے خلاف ہر گز نہیں ہوسکتا ہے، نہ اس میں تبدیلی ممکن ہے، لہٰذا جو شخص بھی صحابہ کے منہج وطرز زندگی کو اپنائے گا وہ ان انعامات الٰہی کے استحقاق کے لیے انھیں کے حکم میں سے ہے، ان صحابہ کو افضیلت، اسبقیت اور کمال کا وہ مقام ملا ہے جہاں تک ان کے علاوہ اس امت کے کسی دوسرے فرد کی رسائی ہی نہیں ہے، اللہ ان سے راضی ہو اور فردوس کی جنتوں کو ان کا ٹھکانا بنائے۔ [1] صحابہ کرام کے بارے میں اللہ کا جو یہ فرمان ہے کہ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، تو اس میں بہت ہی خطرناک حکم پوشیدہ ہے اور جو لوگ اصحاب رسول کو دیکھ کر، یا سن کر خار کھاتے اور چڑتے ہیں ان کے لیے سخت ترین وعید وہلاکت آمیز دھمکی ہے۔[2] مذکورہ آیت کے اختتام پر اللہ نے وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٩﴾ فرما کر تمام صحابہ سے جنت کا وعدہ کیا اور امت اجابت میں سے جو انسان بھی ایمان وعمل صالح کی زندگی گزار ے اس سے بھی یہی وعدہ کیا۔ یہ حکم قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کے لیے ہے۔[3] اس آیت کریمہ میں ’’مِنْہُم‘‘ مِنْ بیا ن جنس کے لیے ہے، یعنی تمام ایمان والوں اور عمل صالح والوں سے یہی وعدہ ہے، ’’مِنْ‘‘ تبعیض کے لیے نہیں ہے کہ جس کا مطلب ہوگا ان میں سے صرف بعض ایمان والوں اور عمل صالح والوں سے یہ وعدہ ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یقینا اس آیت میں اصحاب رسول کا تذکرہ جن صفات کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ ان کی بہت بڑی مدح وستائش ہے ان کے اوصاف حمیدہ یہ ہیں کہ کافروں کے لیے سخت، آپس میں رحمت ومحبت کا نمونہ ہیں۔ ان کے یہاں رکوع وسجود کی کثرت ہے، اللہ کے فضل ورضا مندی کی جستجو ہے، چہروں پر سجدوں کے نشانات ہیں، جس طرح کھیتی درجہ بدرجہ اپنی کونپل نکالتی ہے پھر اس میں مضبوطی آتی ہے، پھر موٹا ہوتی ہے، پھر تنے پر سیدھی کھڑی ہوتی ہے، اسی طرح صحابہ اور مومنین بھی درجہ بدرجہ، کمزوری، پھر کمال قوت، اور پھر اعتدال کے مراتب طے کرتے ہیں، تاہم یہ واضح رہے کہ صرف ان صفات پر مغفرت اور اجر عظیم کا دارو مدار نہیں ہے، بلکہ ان کے
Flag Counter