کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعہ کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ میں نے اس بحث کو مذکورہ آیت کریمہ کے ساتھ ختم کرنا اس لیے مناسب سمجھا تاکہ خلفائے راشدین ، اہل بیت اور صحابہ کرام میں باہمی محبت، رحمت اور تعاون کے تعلق سے میں نے جو کچھ ذکر کیا ہے اس کی صداقت کی دلیل بن سکے۔ پس یہ آیت کریمہ اللہ کی طرف سے مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وستائش پرمشتمل ہے، پھر دوسرے درجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی ہے اور ان کے اوصاف کو یوں سراہا ہے کہ وہ آپس میں نرم ہیں، اور کفار کے لیے سخت ہیں۔[1] ان میں باہمی رحم د لی اور تعاطف کا جذبہ بھرا ہوا ہے، وہ اخلاص کا مل اور پورے یقین کے ساتھ اعمال صالحہ بجالاتے ہیں، انھیں اعمال صالحہ میں سے نماز ہے وہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کثرت سے نمازیں پڑھتے ہیں، جن کی علامت ان کے چہروں پر نمایاں ہوتی ہے: سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ (الفتح:29) ’’ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدہ کرنے کے اثر سے۔‘‘ حسن بصری اور سعیدبن جبیرکہتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بھی ایک روایت میں اس کی تفسیر یہ ہے کہ نمازیوں کی پیشانی پر سفید چمک ہوگی جو قیامت کے دن چمکے گی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی د وسری روایت اور مجاہدسے مروی ہے کہ یہ نشان دنیا ہی میں نظر آتا ہے، یعنی اچھی ہیئت و کردار ۔ مجاہد کی ایک روایت میں ہے کہ ان کے اندر خشوع و تواضع پیدا ہوجاتی ہے۔[2] مذکورہ اقوال میں کوئی اختلاف نہیں، صرف تعبیر وبیان کا فرق ہے، ایسا ممکن ہے تواضع وخشوع کے نتیجہ میں دنیا میں اچھی ہیئت و کردار کے حامل ہوں اور آخرت میں ان کی پیشانیوں پر نور کی چمک بھی ہو۔ [3] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نیتیں خالص تھیں، ان کے اعمال و کردار نیک تھے، جس نے بھی ان پر نگاہ ڈالی وہ ان کے اوصاف وکردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ جب ملک شام کے نصاریٰ فاتحین شام کے صحابہ کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے : واللہ جیسا کہ ہم نے سنا تھا، یہ لوگ یقینا ہمارے نبی کے حواریوں سے کہیں زیادہ اچھے ہیں۔ گزشتہ آسمانی کتب میں ان کی عظمت کو سراہا گیا ہے، پھر ان میں بھی سب سے عظیم اور افضل وہ لوگ ہیں جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صحابہ ہیں۔ تمام آسمانی کتب میں اور متداول مذہبی روایات میں اللہ کی طرف سے ان لوگوں کے حق میں ذکر خیر ملتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ ’’ان کی یہی مثال تورات میں ہے‘‘ پھر آگے فرمایا: وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ ’’اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی کونپل نکالی‘‘ ’’فَآزَرَہُ‘‘ ’’پھر اسے مضبوط کیا‘‘ ’’فَاسْتَغْلَظَ‘‘ ’’اور وہ موٹا ہوگئی‘‘فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |