وہ تین لوگ کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، اور مرارۃ بن ربیع رضی اللہ عنہم تھے۔ اس کے باوجود اللہ کی کتاب مقدس، جس میں کسی طرف سے باطل کا شائبہ تک نہیں، سے صاف الفاظ میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی توبہ قبول کرلی اور یہ توبہ بھی ایسی مثالی کہ اللہ نے اس کے بارے میں وحی نازل کردی، جسے آج تک تلاوت کیا جاتا ہے۔ فرمایا: لَّقَد تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١١٧﴾وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١١٨﴾ (التوبۃ:117، 118) ’’بلاشبہ یقینا اللہ نے نبی پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار پر بھی، جو تنگ دستی کی گھڑی میں اس کے ساتھ رہے، اس کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل ٹیڑھے ہو جائیں، پھر وہ ان پر دوبارہ مہربان ہوگیا۔ یقینا وہ ان پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اور ان تینوں پر بھی جو موقوف رکھے گئے، یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ فراخ تھی اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہوگئیں اور انھوں نے یقین کر لیا کہ بے شک اللہ سے پناہ کی کوئی جگہ اس کی جناب کے سوا نہیں، پھر اس نے ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائی، تاکہ وہ توبہ کریں۔ یقینا اللہ ہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی اس خبر کو متضمن ہیں کہ اس نے ان مہاجرین و انصار کی توبہ کو قبول کرلی جنھوں نے غزوۂ تبوک میں جس کا دوسرا نام غزوہ عسرہ بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور مشقت، تکلیف اور فقر و فاقہ کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ شریک ہوئے اور غزوہ سے پیچھے نہ رہے۔ جب کہ بعض روایات کے مطابق تنگی اور بدحالی کی انتہا یہ تھی کہ کئی لوگوں پر مشتمل جماعت کے افراد ایک ہی کھجور کو آپس میں چوس چوس کر منہ میٹھا کرکے پانی پی لیتے یہاں تک کہ سب اسی طرح کرکے اپنی بھوک و پیاس مٹاتے۔[1] اسی طرح یہ آیت ان تین لوگوں کی قبولیت توبہ پر مشتمل ہے جو اس غزوہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہونے سے پیچھے رہ گئے تھے، پھر آپ نے ان کا بائیکاٹ کردیا اوروہ لوگ اپنی اس غلطی پر سخت نادم ہوئے تھے، یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوچکی تھی۔ چنانچہ اب ان صحابہ کے حق میں اللہ کی طرف سے مغفرت، قبولیت توبہ اور توصیفی کلمات کے اعلان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کے تزکیہ کے بعد کسی کو زبان کھولنے کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ان اصحاب رسول کی شان میں گستاخی کرے، یا تعریض و اشارہ میں ایسی بات کہے جس سے ان کی عظمت پر حرف آتا ہو۔ رہا صحابۂ کرام |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |