Maktaba Wahhabi

1100 - 1201
ایک جگہ فرمایا: وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم ﴿٣٨﴾ (محمد:38) ’’اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمھاری جگہ تمھارے سوا اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہیں ہوں گے۔‘‘ اور کتاب ’’ثم اہتدیت‘‘ کے مؤلف کے نزدیک یہ بالکل واضح اور قطعی بات ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ فرقوں میں بٹ گئے، آپس میں اختلاف کربیٹھے اور فتنہ کی آگ بھڑکا دی، یہاں تک کہ باہمی قتل و قتال اور خونریزی تک نوبت آپہنچی، جو مسلمانوں کی پسماندگی اور زوال کا سبب ثابت ہوئی، اور دشمنوں نے ان کی طرف نگاہیں اٹھانا شروع کردیا۔[1] تردید:… ان دونوں آیات میں کسی بھی صحابیٔ رسول پر کوئی طعن و تشنیع نہیں ہے، بلکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو جہاد پر ابھارا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو روم والوں سے غزوہ کرنے کا حکم دیا تواس وقت اصحاب رسول نہایت تنگی اور فاقہ کشی کی حالت سے دوچار تھے، گرمی کی شدت اور سفر کی دوری اس پر مستزاد تھی، اس وجہ سے یہ غزوہ ان کے لیے قدرے گراں تھا۔ ایسے موقع پر جہاد فی سبیل اللہ کی طرف رغبت دلانے اور اسے گراں سمجھنے سے ڈرانے والی یہ آیات نازل ہوئیں اور صحابہ کرام نے اپنے رب کے اس حکم پر لبیک کہا۔ چنانچہ طبری نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ (التوبۃ:38) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ آیت کریمہ اللہ کی طرف سے اس کے مومن بندوں یعنی اصحاب رسول کو روم والوں سے غزوہ کرنے یعنی غزوۂ تبوک میں شرکت پر ابھارتی ہے۔[2] بلاشبہ یہ دونوں آیات ان بعض لوگوں پر ایک طرح کے عتابِ الٰہی پر مشتمل ہیں، جنھیں اس جہاد میں شرکت کرنا گراں گزر رہا تھا۔ لیکن اس میں تمام اصحاب رسول ہرگز شامل نہیں ہیں کہ جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی بات سنتے ہی جہاد پر نکلنے میں جلدی کیا، زیادہ تر صحابہ ایسے ہی تھے۔[3] ابن کثیر فرماتے ہیں: ’’غزوۂ تبوک کے موقع پر جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے یہاں سے ان پر عتاب کا ذکر ہو رہا ہے۔‘‘ [4] ہمیں معلوم ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر معذوروں کو چھوڑ کر تین افراد کے علاوہ کوئی اور شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے سے پیچھے نہیں رہا تھا، جیسا کہ صحیحین میں کعب بن مالک کی مشہور حدیث اس کی واضح دلیل ہے۔[5] اور
Flag Counter