کے باہمی قتال کا معاملہ تو یہ علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں رونما ہوا اور اس فتنہ میں صحابہ کرام میں اختلاف کے اسباب کیا تھے اور ہر ایک جماعت کا اپنا کیا نقطۂ نظر تھا؟ یہ ساری باتیں شروع میں تفصیل سے بیان کی جاچکی ہیں۔ وہ لوگ اس طرح کی تمام تہمتوں سے پاک ہیں۔ ان مواقع پر ان لوگوں کی جو کچھ بھی لغزشیں نظر آتی ہیں ان کے بارے میں یہی کہنا بہتر ہے کہ وہ ان مسائل میں مجتہد تھے، کسی واقعہ کو لے کر انھیں مذمت کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے، ان کے باہمی اختلافات و امتثال پر بحث و مباحثہ کرنے سے پرہیز کرنا اور ان پر دعائے رحمت کرنا ہی ان کے حق میں سب سے بہتر منہج اور سیدھا راستہ ہے، اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو۔[1] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((بَیْنَا أَنَا قَائِمٌ فَإِذَا زُمْرَۃٌ حَتّٰی إِذَا عَرَفْتُہُمْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہُمْ فَقَالَ: ہَلُمَّ، قُلْتُ: أَیْنَ؟ قَالَ: إِلَی النَّارِ وَاللّٰہِ ، قُلْتُ: وَ مَا شَأْنُہُمْ؟ قَالَ: إِنَّہُمْ ارْتَدُّوْا بَعْدَکَ عَلٰی أَدْبَارِہِمْ الْقَہْقَرٰی۔ ثُمَّ إِذَا زُمْرَۃٌ حَتّٰی اِذَا عَرَفْتُہُمْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہُمْ فَقَالَ: ہَلُمَّ، فَقُلْتُ: إِلٰی اَیْنَ؟ فَقَالَ: إِلَی النَّارِ وَاللّٰہِ، قُلْتُ: مَا شَاْنُہُمْ؟ قَالَ: اِنَّہُمْ ارْتَدُّوْا بَعْدَکَ عَلٰی اَدْبَارِہِمْ الْقَہْقَرٰی، فَلَا اَرٰی یَخْلُصُ مِنْہُمْ اِلَّا ہَمَلَ النَّعَمِ۔))[2] ’’میں حوض پر کھڑا ہوں گا کہ ایک جماعت میرے سامنے آئے گی اور جب میں انھیں پہچان لوں گا توایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان سے نکلے گا اور ان سے کہے گا ادھر آؤ، میں کہوں گا کہ کدھر؟ وہ کہے گا واللہ جہنم کی طرف، میں کہوں گا: ان کا کیا قصور ہے؟ وہ کہے گا یہ لوگ آپ کے بعدالٹے پاؤں دین سے واپس لوٹ گئے تھے۔ پھر ایک اور گروہ میرے سامنے آئے گا اور جب میں انھیں پہچان لوں گا تو ایک شخص (فرشتہ) میرے اور ان کے درمیان میں سے نکلے گا اور ان سے کہے گا کہ ادھر آؤ، میں پوچھوں گا کہ کہاں؟ تو وہ کہے گا: اللہ کی قسم جہنم کی طرف۔ میں کہوں گا کہ ان کا کیا قصور ہے؟ فرشتہ کہے گا: یہ لوگ آپ کے بعد الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ ان گروہوں میں سے بہت تھوڑے لوگ بچ پائیں گے۔‘‘ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَنَا فَرْطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ، مَنْ وَرَدَ شَرِبَ، وَ مَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأ اَبَدًا، وَلَیَرُدَّنَّ عَلَیَّ اَقْوَامٌ اَعْرِفُہُمْ وَ یَعْرِفُوْنَنِیْ، ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہُمْ، فَاَقُوْلُ: اِنَّہُمْ مِنَّیْ فَیُقَالُ: إِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا عَمِلُوْا بَعْدَکَ، فَاَقُوْلَ: سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ بَدَّلَ بَعْدِیْ۔))[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |