وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ ﴿١٤٤﴾ (آل عمران:144) ’’اور نہیں ہے محمد مگر ایک رسول، بے شک اس سے پہلے کئی رسول گزر چکے تو کیا اگر آپ فوت ہو جائیں، یا قتل کر دئیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے اور جو اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔‘‘ لہٰذا جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، وہ کبھی نہ مرے گا اور جو محمد کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد موت پاچکے ہیں۔[1] پس بلاشبہ اپنے اسلام و ایمان کو کفر سے بدل کر مسیلمہ، سجاح، طلیحہ بن خویلد اور اسود عنسی جیسے سرداران ارتداد کی پیروی کرنے والے مرتدین کے خلاف آپ کا فیصلہ کن موقف، اور جن لوگوں نے یہ کہہ کر کہ ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ نہیں دیں گے، اسلام کے شعائر کو ڈھانا چاہا تھا، ان کے خلاف آپ کا اعلان جنگ، آپ اور آپ کے ساتھی دیگر صحابہ کی عظمت و کردار کی بلندی اور اللہ کے دین کی خدمت کی سب سے پاکیزہ مثال ہے۔ واضح رہے کہ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ خلیفۂ راشد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے، لیکن تیجانی، شرف الدین موسوی اور پتہ نہیں کون کون اثنا عشری علمائے شیعہ ہیں جو مسلسل مانعین زکوٰۃ کے مسئلہ کو لے کر بڑ بڑاتے رہتے ہیں۔ اور مجرمین کے دامن غلاظت کو پاک کرکے ابوبکر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دامن کو اباطیل و ارتداد سے ناپاک کرنا چاہتے ہیں۔ بھلا اس سے بڑی ضلالت کی بات وہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ وہ اصحاب رسول کی عظمت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور جن پاکیزہ نفوس نے دین اسلام کی سربلندی کی خاطر اللہ کے راستہ میں جہاد کیا اسے کفر، ارتداد اور نفاق کی علامت قرار دیتے ہیں۔[2] اور یہی وجہ ہے کہ جب ہم امام ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہما بن ابی طالب کی زبان سے ابوبکر صدیق کے لیے اجلال اور توقیر و احترام کے توصیفی کلمات سنتے ہیں تو ہم اس پر کسی اچنبھے میں نہیں پڑتے، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ بدکلامی سے پاک ہیں، چنانچہ اربلی نے اپنی کتاب ’’کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ‘‘ میں عروہ بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے ابوجعفر محمد بن علی سے تلوار کو مزین کرنے کے بارے میں فتویٰ پوچھا: تو آپ نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، ابوبکر صدیق نے اپنی تلوار کو مزین کیا ہے۔ میں نے کہا کیا آپ ابوبکر کو صدیق کہتے ہیں؟ راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر آپ اچھل پڑے اور قبلہ رو ہو کر کہنے لگے: ہاں، صدیق، ہاں صدیق، جو ان کو صدیق نہ کہے اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کسی بات |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |