دلائل عام ہیں۔[1] بہرحال یہ دعویٰ کرنا کہ قرآن کی تفسیر صرف علی رضی اللہ عنہ کے لیے کی گئی، درحقیقت اللہ کے اس فرمان کی مخالفت ہے: وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾ (النحل: 44) ’’اورہم نے تیری طرف یہ نصیحت اتاری، تاکہ آپ لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر دیں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غور وفکر کریں۔‘‘ کیونکہ قرآن صرف علی رضی اللہ عنہ کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے بیان ہے۔ اگر کوئی شخص یہ نہیں مانتا تو اسے دوباتوں میں سے ایک ضرور کہنا پڑے گی۔ یا تویہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو قرآن نازل کیا گیا آپ نے اس کی تبلیغ نہیں کی، اور یا تو وہ قرآن کو جھٹلا دے اوریہ دونوں باتیں عقل و شریعت کے خلاف ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا کہ قرآن کا علم صرف ائمہ کے لیے مخصوص ہے، سو یہ دعویٰ واقع کے خلاف ہے، اس لیے کہ خلفائے راشدین، ابن مسعود، ابن عباس اور زید بن ثابت اور ان جیسے دیگر بہت سارے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تفسیر قرآن کے میدان میں شہرت پائی، خود علی رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر کی تعریف کیا کرتے تھے۔[2] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جن سے -اللہ نے جتنا چاہا- ثابت شدہ اسناد سے تفسیری اقوال و روایات منقول ہیں۔ لیکن ان میں کہیں بھی علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں۔ یہی ابن عباس ہیں جو ایک نہیں، کئی صحابہ سے تفسیری اقوال روایت کرتے ہیں۔ عمر، ابوہریرہ، عبدالرحمن، زید بن ثابت، ابی بن کعب، اسامہ بن زید اور کئی ایک مہاجرین و انصار سے انھوں نے روایات نقل کی ہیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی روایت بہت ہی کم ہے۔ صحیح روایات کا اہتمام کرنے والوں میں سے کسی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی کوئی روایت علی رضی اللہ عنہ سے نقل نہیں کی ہے، جب کہ انھیں لوگوں نے عمر، عبدالرحمن بن عوف اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے ابن عباس کی روایات نقل کی ہیں، اسی طرح آج تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں علی رضی اللہ عنہ کی کوئی ثابت شدہ تفسیر نہیں پائی گئی۔ اور یہ حدیث و تفسیر کی کتب ہیں جو صحابہ اور تابعین کے آثار سے بھری پڑی ہیں لیکن ان میں علی رضی اللہ عنہ کی روایت بہت ہی کم نظر آتی ہے، نیز واضح رہے کہ جس تفسیر کا حوالہ جعفر صادق کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر جعفر صادق پر تہمت اور جھوٹ ہے۔ [3] اِس کا اعتراف جعفر صادق کو بھی رہا ہے، خود انھیں کے بقول لوگ ان پر تھوک کے بھاؤ جھوٹ بولتے ہیں۔ اہل تشیع کا یہ کہنا کہ علم قرآن کو دوسروں تک پہنچانے اور نقل کرنے میں علی رضی اللہ عنہ منفرد ہیں، یہ ایسی بات ہے جس سے اس مسلّمہ حقیقت پر اعتراض اور حرف آتا ہے کہ قرآنی شریعت صحابہ کرام کے ذریعہ سے بعد کی تمام نسلوں تک بسند تواتر پہنچی۔ کیونکہ اہل تشیع کے اپنے عقیدہ کے مطابق قرآن کی تفسیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے والے صرف ایک ہی فرد ہیں۔ اور وہ علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ پس ایسی بات درحقیقت ایک سازش ہے جس کا بنیادی مقصد لوگوں کو اللہ کی کتاب سے دور رکھنا ہے۔ اور اس بات کی کوشش ہے کہ قرآن میں تدبر کرنے، اس کی رہنمائی سے مستفید ہونے، اس کے واقعات سے عبرت اندوز ہونے اور اس کے معانی و مقاصد میں غور و فکر کرنے سے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |