کتاب سے روکنا چاہتا ہے اور اسے اللہ کی ہدایت سے بہکانے پر آمادہ ہے، آپ دیکھیں کہ جب اس عقیدہ نے قرآن کی حجیت کو ایک منتظم اور نگران کے وجود سے مربوط کردیا اور وہ منتظم بھی بارہ نامزد اماموں میں سے ایک ٹھہرا، کیونکہ اسی عقیدہ کے بموجب تفسیر قرآن کا علم صرف ایک شخص یعنی علی رضی اللہ عنہ کو عطا کیا گیا اور پھر آپ کے ذریعہ سے بقیہ بارہ ائمہ اس علم سے نوازے گئے، بایں طور کہ ہر امام اپنے بعد والے امام کو تفسیر قرآن کا علم عطا کرتا، یہاں تک کہ یہ علم بارھویں امام تک پہنچا، جو کہ اثنا عشری شیعہ قوم کے عقیدہ کے مطابق گیارہ صدیوں سے کچھ زائد زمانہ سے غائب ہے، بلکہ بعض شیعہ کے نزدیک وہ امام معدوم ہے، تو جب اس عقیدہ نے حجیت قرآن کو ایسے غائب یا معدوم منتظم اور نگران کے ساتھ مربوط کردیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن قابل حجت و استدلال نہیں، کیونکہ اس کا منتظم غائب یا معدوم ہے اور کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنا، یا اس کی آیات کو معرض استدلال میں پیش کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ حجت صرف اس امام کے قول اور اس کی تفسیر میں ہے اور وہ غائب ہے اس لیے قرآن بھی لائق حجت نہیں۔ یہ ہے گمراہی اور راہ حق سے بہکانے کی انتہا، آپ بھولیں نہیں کہ کتاب اللہ اور شیعہ قوم و مذہب کے خلاف سازش کی انتہا یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ شیعہ قوم کو اللہ کی کتاب سے دور رکھنے کے لیے متنوع ریشہ دوانیوں اور سازش کی مسلسل کڑیوں کی ایک کڑی ہے۔[1] جب کہ قطعیت اور صراحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہے کہ اسلام میں قرآن کریم کا علم کوئی سربستہ راز نہیں ہے کہ جو نسل درنسل ایک مخصوص قوم میں موروثی طور سے منتقل ہوتا رہے، اور نہ ہی اس سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ کی کوئی ایسی تخصیص رہی ہے جو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ ملی ہو، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہی وہ اولین دستہ تھا جسے پوری انسانیت کے علمبردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان رسالت سے راست طور سے قرآن سیکھنے اور اپنے بعد کے لوگوں تک اسے پہنچانے کا شرف حاصل رہا، لیکن شیعہ قوم ہے کہ وہ اس بنیادی حقیقت سے انکار کرتی ہے اور یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکمل علم قرآن کے لیے اس کے بارے اماموں کو خاص کرلیا ہے اور صرف انھیں کو اس کی تفسیر و تاویل کا علم حاصل ہے، اگر کوئی شخص ان کے علاوہ کہیں اور قرآن کا علم حاصل کرتا ہے تو وہ گمراہ ہوجائے گا۔[2] واضح رہے کہ اہل سنت کے بعض مصادر و مراجع میں یہ بات ملتی ہے کہ مذکورہ زہرآلود عقیدہ کا آغاز اور اس کی جڑیں ابن سبا یہودی کی طرف لوٹتی ہیں۔ اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسی نے سب سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا کہ قرآن منزل من اللہ نو (9) اجزاء میں سے ایک جزء ہے اور کامل اجزاء کا علم علی کے پاس ہے۔[3] شیعہ قوم کا یہ عقیدہ، اثنا عشری اہل تشیع کی کتب میں مختلف اخبار اور روایات کی شکل میں موجود ہے، چنانچہ اصول الکافی کی ایک طویل روایت میں ابوعبداللہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: لوگوں کے لیے قرآن کافی ہے، |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |